حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
آدمیوں کا بھی امیر نہ بننا، اور مظلوم اور بے بس و مجبور کی بد دعا سے بچنا کیوںکہ ان کی دعا کو کوئی نہیں روک سکتا (سیدھی عرش پر جاتی ہے)۔2 حضرت ثابت ؓکہتے ہیں کہ حضرت سلمان ؓ مدائن کے گورنر تھے۔ وہ گھٹنے تک کی شلوار اور چغہ پہن کر باہر لوگوں میں نکلتے تو لوگ انھیں دیکھ کر کہتے: گرگ آمد گرگ آمد۔ حضر ت سلمان پوچھتے: یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگ بتاتے کہ یہ آپ کو اپنے ایک کھلونے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ حضرت سلمان فرماتے: کوئی بات نہیں، (دنیا میں اچھا یا برا ہونے سے فرق نہیں پڑتا) اصل میں اچھا وہ ہے جو کل اچھا شمار ہو۔3 حضرت ہُرَیم ؓکہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ایک گدھے پر سوار ہیں جس کی پیٹھ ننگی ہے اور انھوں نے سُنْبلان مقام کی بنی ہوئی چھوٹی سی قمیص پہن رکھی تھی جو نیچے سے تنگ تھی۔ ان کی پنڈلیاں لمبی تھیں ان پر بال بھی بہت تھے، قمیص ان کی اونچی تھی جو گھٹنوں تک پہنچ رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ بچے پیچھے سے ان کے گدھے کو بھگا رہے ہیں۔ میں نے بچوں کو کہا: کیا تم امیرسے پرے نہیں ہٹتے؟ حضرت سلمان نے فرمایا: انھیں چھوڑو، اچھے برے کا تو کل پتا چلے گا۔4 حضرت ثابت ؓ کہتے ہیں: حضرت سلمان ؓ مدائن کے گورنر تھے۔ ایک دفعہ قبیلہ بنو تیم اللہ کا ایک شامی آدمی آیا، اس کے پاس بھوسے کا ایک گٹھڑ تھا۔ اسے راستے میں حضرت سلمان ملے، انھوں نے گھٹنے تک کی شلوار اور چغہ پہن رکھا تھا۔ اس آدمی نے ان سے کہا: آؤ، میرا یہ گٹھڑ اٹھالو۔ وہ آدمی ان کو پہچانتا نہیں تھا۔ حضرت سلمان نے وہ گٹھڑ اٹھالیا۔ جب اور لوگوں نے حضرت سلمان کو دیکھا تو انھوں نے انھیں پہچان لیا اور اس آدمی سے کہا: یہ تو (ہمارے) گورنر ہیں۔ ا س آدمی نے حضرت سلمان سے کہا: میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ حضرت سلمان نے فرمایا: نہیں، میں تمہارے گھر تک اسے پہنچاؤں گا۔ دوسری سند کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت سلمان نے فرمایا: میں نے (تمہاری خدمت کی) نیت کی ہے، اس لیے جب تک میں اسے تمہارے گھر تک نہیں پہنچا دوں گا اسے (سر سے اتار کر) نیچے نہیں رکھوں گا۔1 حضرت عبد اللہ بن بریدہ ؓ فرماتے ہیں: حضرت سلمانؓ اپنے ہاتھوں سے کام کرکے کوئی چیز تیار کیا کرتے تھے۔ جب انھیں اس کام سے کچھ رقم مل جاتی تو گوشت یا مچھلی خرید کر اسے پکاتے، پھر کوڑھ کے مریضوں کو بلاتے اور ان کے ساتھ کھاتے۔2 حضرت محمد بن سِیْرِین ؓکہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطّاب ؓکسی کو گورنر بناکر بھیجتے تو اس کے معاہدہ نامہ میں (لوگوں کو) یہ لکھتے کہ جب تک یہ تمہارے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ کرتے رہیں تم ان کی بات سنتے رہو اور مانتے رہو۔ چناںچہ جب حضرت حذیفہ ؓکو مدائن کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان کے معاہدہ نامہ میں یہ لکھا کہ ان کی بات سنو اور مانو، اور جو تم سے