حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت سِنان بن سَلَمہ ہُذَلی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں چند لڑکوں کے ساتھ نکلا۔ اور ہم مدینہ میں گری ہوئی آدھ کچری کھجوریں چننے لگے کہ اتنے میں حضرت عمر بن خطّاب ؓ کوڑا لیے ہوئے آگئے۔ جب لڑکوں نے ان کو دیکھا تو وہ سب کھجوروں کے باغ میں اِدھر اُدھر بکھر گئے، لیکن میں وہیں کھڑا رہا اور میری لنگی میں کچھ کھجوریں تھیں جو میں نے وہاں سے چُنی تھیں۔ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! یہ کھجوریں وہ ہیں جو ہوا سے نیچے گری ہیں (یعنی میں نے درخت سے نہیں توڑی ہیں)۔ حضرت عمر نے میری لنگی میں رکھی ہوئی ان کھجوروں کو دیکھا اور مجھے نہ مارا۔ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! (میں اب گھر جانا چاہتا ہوں، راستہ میں) آگے لڑکے کھڑے ہیں جو میری یہ تمام کھجوریں چھین لیں گے۔ حضرت عمر نے فرمایا: نہیں، ہرگز نہیں، چلو (میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں)۔ چناںچہ حضرت عمر میرے ساتھ میرے گھر تک آئے۔3 حضرت مالک ؓ کے دادا بیان کرتے ہیں کہ میں نے کئی بار دیکھا کہ حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ جب مکہ سے مدینہ واپس آتے تو (مدینہ سے ذرا پہلے) مُعَرَّس مسجد (ذو الحُلَیْفہ) میں قیام فرماتے، اور جب مدینہ منوّرہ میں داخل ہونے کے لیے سوار ہوتے تو سواری پر پیچھے کسی کو ضرور بٹھاتے اور کوئی نہ ملتا تو کسی لڑکے کو ہی بٹھا لیتے اور اسی حال میں مدینہ میں داخل ہوتے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے کہا: کیا حضرت عمراورحضرت عثمان ؓ اپنے پیچھے تواضع کے خیال سے بٹھایا کرتے تھے؟ تو انھوں نے کہا: ہاں! تواضع کے خیال سے بھی بٹھاتے تھے، اور یہ بھی چاہتے تھے کہ پیدل آدمی کو سواری مل جائے اس کا بھی فائدہ ہو جائے، اور یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ اور بادشاہوں جیسے نہ ہوں (کہ وہ تو کسی عام آدمی کو اپنے پیچھے بٹھاتے نہیں)۔ پھر وہ بتانے لگے کہ اب تو لوگوں نے نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے، خود سوار ہو جاتے ہیں اور غلام اور لڑکوں کو اپنے پیچھے پیدل چلاتے ہیں، اور یہ بہت ہی عیب کی بات ہے۔1 حضرت میمون بن مہران ؓکہتے ہیں: مجھے ہمدانی نے بتایا کہ میں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ آپ خچر پر سوار ہیں اور ان کا غلام نائل ان کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے حالاںکہ آپ اس وقت خلیفہ تھے۔2 حضرت عبد اللہ رومی ؓکہتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ رات کو اپنے وضو کا انتظام خود کیا کرتے تھے۔ کسی نے ان سے کہا: اگر آپ اپنے کسی خادم سے کہہ دیں تو وہ یہ انتظام کر دیا کرے گا۔ حضرت عثمان نے فرمایا: رات ان کی اپنی ہے جس میں وہ آرام کرتے ہیں۔3 حضرت زبیر بن عبد اللہ ؓکہتے ہیں کہ میری دادی حضرت عثمان ؓ کی خادمہ تھیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ (تہجد کے وقت) حضرت عثمان اپنے گھرو الوں میں سے کسی کو نہ جگاتے، ہاں اگر کوئی از خود اٹھا ہوا ہوتا تو اسے بلا لیتے تو وہ آپ کو وضو کے لیے پانی لا دیتا، اور آپ ہمیشہ روزہ رکھتے۔4