حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ کہہ کر اس سے حضرت عمر نے ڈوئی لے لی اور فرمایا: اس طرح گھونٹا جاتا ہے۔ اور اسے گھونٹ کردکھایا۔1 حضرت ہشام بن خالد ؓکہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطّابؓکو (عورتوں سے) یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب تک پانی گرم نہ ہوجائے تم میں سے کوئی عورت آٹا نہ ڈالے اور جب پانی گرم ہوجائے تو تھوڑا تھوڑا کر کے ڈالتی جائے اور ڈوئی سے اس کو ہلاتی جائے، اس طرح اچھی طرح مل جائے گا اور ٹکڑے ٹکڑے نہیں بنے گا۔2 حضرت زر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ عیدگاہ ننگے پاؤں جا رہے ہیں۔3 حضرت عمر مخزومی ؓکہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے اعلان کروایا: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ سب نماز میں جمع ہوجائیں ضروری بات کرنی ہے۔ جب لوگ کثرت سے جمع ہوگئے تو حضرت عمر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمد وثنا اور درود وسلام کے بعد فرمایا: اے لوگو! میری چند خالائیں تھیں جو قبیلہ بنو مخزوم کی تھیں۔ میں ان کے جانور چرایا کرتا تھا وہ مجھے مٹھی بھر کشمش اور کھجور دے دیا کرتی تھیں۔ میں اس پر سارا دن گزارا کرتا تھا اور وہ بہت ہی اچھا دن ہوتا تھا۔ پھر حضرت عمر منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے ان سے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے اور تو کوئی خاص بات کہی نہیں بس اپنا عیب ہی بیان کیا۔ حضرت عمر نے کہا: اے ابنِ عوف! تیرا بھلا ہو! میں تنہائی میں بیٹھا ہوا تھا میرے نفس نے مجھ سے کہاتُو امیر المؤمنین ہے، تجھ سے افضل کون ہو سکتا ہے؟ تو میں نے چاہا کہ اپنے نفس کو اس کی حیثیت بتا دوں۔4 ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے اپنا یہ حال دیکھا ہے کہ میرے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی، میں اپنی قبیلہ بنو مخزوم کی خالاؤں کو میٹھا پانی لا کر دیا کرتا تھا وہ مجھے کشمش کی چند مٹھیاں دے دیا کرتی تھیں، بس یہ کشمش ہی کھانے کی چیز ہوتی تھی۔ آخر میں یہ بھی فرمایا: مجھے اپنے نفس میں کچھ بڑائی محسوس ہوئی تو میں نے چاہا کہ اسے کچھ نیچے جھکاؤں۔1 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ ایک سخت گرم دن میں سر پر چادر رکھے ہوئے باہر نکلے۔ ان کے پاس سے ایک جوان گدھے پر گزرا تو حضرت عمر نے فرمایا: اے جوان! مجھے اپنے ساتھ بٹھالے۔ وہ نوجوان کود کر گدھے سے نیچے اترا اور اس نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! آپ سوار ہو جائیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: نہیں، پہلے تم سوار ہو جاؤ میں تمہارے پیچھے بیٹھ جاؤں گا۔ تم مجھے نرم جگہ بٹھانا چاہتے ہو اور خود سخت جگہ بیٹھنا چاہتے ہو۔ چناںچہ وہ جوان گدھے پر آگے بیٹھا اور حضرت عمر اس کے پیچھے۔ آپ جب مدینہ منوّرہ داخل ہوئے تو آپ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور سب لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔2