حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے بدلہ میں مجھے سرخ اُونٹ مل جائیں (جو کہ عربوں میں سب سے عمدہ مال شمار ہوتا تھا)۔ میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جعفر کی صورت اور سیرت مجھ سے ملتی ہے۔ اور اے عبداللہ! اللہ کی ساری مخلوق میں تم اپنے والد کے سب سے زیادہ مشابہ ہو (میں والد کے مشابہ ہوا اور والد حضورﷺ کے مشابہ ہیں، تو میں بھی حضورﷺ کے مشابہ ہو گیا)۔3 حضرت بحیریّہؓکہتی ہیں: میرے چچا حضرت خِداشؓ نے حضورﷺ کو ایک پیالہ میں کھاتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے حضور ﷺ سے وہ پیالہ بطورِ ہدیہ مانگ لیا۔ (حضور ﷺ نے ان کو وہ پیالہ دے دیا) چناںچہ وہ پیالہ ہمارے ہاں رکھا رہتا تھا۔ حضرت عمرؓ ہم سے فرمایاکرتے تھے کہ وہ پیالہ میرے پاس نکال کر لاؤ۔ ہم زَم زَم کے پانی سے بھر کر وہ پیالہ حضرت عمر کے پاس لاتے۔ حضرت عمر اس میں سے کچھ پیتے اور کچھ (برکت کے لیے) اپنے سر اور چہرے پر ڈال دیتے۔ پھر ایک چور نے ہم پر بڑا ظلم کیا کہ وہ ہمارے سامان کے ساتھ اسے بھی چوری کر کے لے گیا۔ پیالہ کی چوری کے بعد حضرت عمر ہمارے پاس آئے اور حسبِ دستور پیالہ کا مطالبہ کیا۔ ہم نے کہا: اے امیر المؤمنین! وہ پیالہ تو ہمارے سامان کے ساتھ چوری ہوگیا۔ حضرت عمر نے فرمایا: وہ چور تو بڑا سمجھ دار ہے جو حضورﷺ کا پیالہ چرا کر لے گیا۔ راوی کہتے ہیں: اللہ کی قسم! حضرت عمرؓ نے نہ تو چور کو برا بھلا کہا اور نہ اس پر لعنت بھیجی۔1 حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عیینہ بن حصن بن (حذیفہ بن) بدرؓ (مدینہ) آئے اور وہ اپنے بھتیجے حضرت حُر بن قیسؓ کے ہاں ٹھہرے۔ حضرت حُر ان لوگوں میں سے تھے جنھیں حضرت عمرؓ اپنے قریب رکھتے تھے، اور عبادت گذار عُلَما ہی حضرت عمر کی مجلسِ شوریٰ میں ہوتے تھے چاہے وہ جوان ہوتے یا عمررسیدہ۔ حضرت عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: اے میرے بھتیجے! تمھیں امیر المؤمنین کے ہاں بڑا درجہ حاصل ہے، تم ان سے میرے لیے آنے کی اجازت حاصل کرو۔ انھوں نے جا کر اپنے چچا کے لیے حضرت عمر سے اجازت مانگی، حضرت عمر نے اجازت دے دی۔ جب وہ حضرت عمر کے پاس گئے تو ان سے یہ کہا: اے ابنِ خطّاب! دیکھو، اللہ کی قسم! آپ ہمیں زیادہ نہیں دیتے ہیں اور ہمارے درمیان عد ل کا فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر کو غصہ آگیا اور حضرت عیینہ کو سزا دینے کا ارادہ فرما لیا۔ حضرت حُر نے کہا: اے امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ o}2 سرسری برتاؤ کو قبول کر لیا کیجیے اور نیک کام کی تعلیم کر دیا کیجیے اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہو جایا کیجیے۔ اور یہ بھی ان جاہلوں میں سے ہے (اس لیے آپ ان کی اس بات سے کنارہ کرلیں)۔ جب حضرت حُر نے یہ آیت پڑ ھی تو اللہ کی قسم! حضرت عمر وہیں رک گئے (اور سزا دینے کا ارادہ چھوڑ دیا)۔ اور حضرت عمر کی یہ بہت بڑی صفت تھی کہ وہ کسی