حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کام کا ارادہ کر لیتے پھر انھیں بتا یا جاتا کہ اللہ کی کتاب اس کام سے روک رہی ہے تو فوراً اس ارادہ کو چھوڑ دیتے اور ایک دم رک جاتے۔1 حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں: میں نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ جب بھی حضرت عمرؓ کو کسی بات پر غصہ آیا، پھر کسی نے ان کے سامنے اللہ کا نام لے لیا یا انھیں آخرت کی پکڑ سے ڈرایا یا ان کے سامنے قرآن کی آیت پڑھ دی، تو حضرت عمر غصہ میں جس کام کا ارادہ کر چکے ہوتے تھے اس سے ایک دم رک جایا کرتے تھے۔2 حضرت اسلم ؓکہتے ہیں کہ حضرت بلالؓ نے پوچھا: اے اسلم! تم لوگوں نے حضرت عمرؓکو کیسا پایا؟ میں نے کہا: بہت اچھا پایا، لیکن انھیں جب غصہ آجاتا ہے تو مسئلہ بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ حضرت بلال نے فرمایا: آیندہ اگر تمہاری موجودگی میں حضرت عمر کو غصہ آجائے تو تم ان کے سامنے قرآن پڑھنے لگ جانا، اِن شاء اللہ ان کا غصہ چلا جائے گا۔ حضرت مالک دار (حضرت عمرؓ کے غلام) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر نے مجھے ڈانٹا اور مارنے کے لیے کوڑا اٹھا لیا۔ میں نے کہا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں۔ اس پر حضرت عمر نے وہ کوڑا نیچے رکھ دیا اور فرمایا: تم نے ایک بڑی ذات کا مجھے واسطہ دیا ہے۔3 حضرت عامربن ربیعہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مُصْعب بن عمیرؓ شروع سے میرے دوست تھے اور جس دن وہ اسلام لائے اس دن سے لے کر جنگِ اُحد میں شہادت پانے تک وہ میرے ساتھ رہے۔ وہ حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں ہمارے ساتھ گئے تھے اور سارے قافلہ میں سے وہ میرے رفیقِ سفر رہے۔ میں نے کوئی آدمی ان سے زیادہ اچھے اخلاق والا اور مخالفت نہ کرنے والا نہیں دیکھا۔4 حضرت حَبَّہ بن جُوین ؓکہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت علیؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے حضرت عبد اللہ (بن مسعودؓ) کی چند باتوں کا تذکرہ کیا اور لوگوں نے ان کی تعریف کی اور یوں کہا: اے امیر المؤمنین! ہم نے کوئی آدمی حضرت عبد اللہ بن مسعود سے زیادہ اچھے اخلاق والا اور ان سے زیادہ نرمی سے تعلیم دینے والا اور ہم نشین کے ساتھ ان سے زیادہ اچھا سلوک کرنے والا اور ان سے زیادہ تقویٰ اور احتیاط والا نہیں دیکھا۔ حضرت علی نے فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم یہ تمام باتیں سچے دل سے کہہ رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت علی نے فرمایا: اے اللہ! میں تجھے اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں بھی ان کے بارے میں وہ تمام باتیں کہتا ہوں جو ان لوگوں نے کہی ہیں، بلکہ میں تو ان سے زیادہ کہتا ہوں۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت علی نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت ابنِ مسعود نے قرآن پڑھا اور اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرا م کو حرام سمجھا (یعنی حلال کو اختیار کیا اور حرام کو چھوڑ دیا)۔ وہ دین کے بہت بڑے فقیہ