حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہے)۔ چناںچہ حضورﷺ نے ان کے لیے استغفار فرمایا۔1 حضرت ابنِ شہاب ؓ کہتے ہیں: حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ کا اپنے اپنے زمانۂ خلافت میں یہ دستور تھا کہ جب یہ حضرات سواری پر سوار ہو کر کہیں جا رہے ہوتے اور راستہ میں حضرت عباس ؓ سے ملاقات ہو جاتی تو یہ حضرات (ان کے اِکرام میں) سواری سے نیچے اترجاتے اور سواری کی لگام پکڑ کر حضرت عباس کے ساتھ پیدل چلتے رہتے اور انھیں ان کے گھر یا ان کی بیٹھک تک پہنچا کر پھر ان سے جدا ہوتے۔2 حضرت قاسم بن محمد ؓ کہتے ہیں: حضرت عثمانؓ نے جو بہت سے نئے قانون بنائے ان میں سے ایک قانون یہ بھی تھا کہ ایک آدمی نے ایک مرتبہ جھگڑے میں حضرت عباس ؓ کے ساتھ حقارت آمیز معاملہ کیا۔ اس پر حضرت عثمان نے اس کی پٹائی کی۔ کسی نے اس پر اعتراض کیا تو اس سے فرمایا: کیا یہ ہو سکتا ہے کہ حضورﷺ تو اپنے چچا کی تعظیم فرمائیں اور میں ان کی تحقیر کی اجازت دے دوں؟ اس آدمی کی اس گستاخی کو جو اچھا سمجھ رہا ہے وہ بھی حضورﷺ کی مخالفت کر رہا ہے۔ چناںچہ حضرت عثمان کے اس نئے قانون کو تمام صحابہ نے بہت پسند کیا ( کہ حضورﷺ کے چچاکے گستاخ کی پٹائی ہوگی)۔3 حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضورﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور صحابۂ کرام آپ کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں حضرت علیؓ سامنے سے آئے۔ انھوں نے آکر سلام کیا اور کھڑے ہو کر اپنے بیٹھنے کی جگہ دیکھنے لگے۔ حضورﷺ اپنے صحابہ کے چہروں کو دیکھنے لگے کہ ان میں سے کون حضرت علی کو جگہ دیتا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ حضور ﷺ کے دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی جگہ سے ذرا ہٹ کر کہا: اے ابو الحسن! یہاں آجاؤ۔ اس پر حضرت علی آگے آئے اور اس جگہ حضورﷺ اور حضرت ابو بکر کے درمیان بیٹھ گئے۔ ہمیں ایک دم حضورﷺ کے چہرہ ٔ انور میں خوشی کے آثار نظر آئے۔ پھر حضورﷺ نے حضرت ابو بکر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: فضیلت والے کے مقام کو فضیلت والا ہی جانتا ہے۔1 حضرت رباح بن حارث ؓ فرماتے ہیں: (کوفہ کے محلہ) رَحْبہ میں ایک جماعت حضرت علیؓ کی خدمت میں آئی اور انھوں نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلاَنَا! (اے ہمارے آقا!) حضرت علی نے کہا: تم لوگ تو عر ب ہو میں تمہارا آقا کیسے بن سکتا ہوں؟ (عجمی لوگ غلام ہوا کرتے ہیں عرب نہیں) انھوں نے کہا: ہم نے غدیرِ خم کے دن حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں جس کا آقا اور دوست ہوں یہ (یہ علی) بھی اس کا آقا ا ور دوست ہے (حضورﷺ ہمارے آقا تھے لہٰذا آپ بھی ہمارے آقا ہوئے)۔ حضرت رباح کہتے ہیں: یہ لوگ چلے گئے تو میں ان کے پیچھے گیا اور میں نے پوچھا کہ یہ