حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! میں کفر وجاہلیت چھوڑ کر نیا نیا اسلام میں داخل ہوا تھا اور جاہلیت والے طور طریقے ابھی ختم نہیں ہوئے تھے اور میں نے سواری پر بٹھانے سے اور جوتی دینے سے جو انکار کیا تھا یہ سب جاہلیت کا اثر تھا۔ اللہ نے ہمارے پاس کامل اسلام بھیجا ہے۔ اس اسلام نے ان تمام کاموں پر پردہ ڈال دیا ہے جو میں نے کیے ہیں۔ حضرت معاویہ نے کہا: ہماری مدد کرنے سے آپ کو کون سی چیز روکتی ہے حالاںکہ حضرت عثمانؓ نے آپ پر بہت اعتماد کیا تھا اور آپ کو اپنا داماد بنایا تھا؟ میں نے کہا: (میں اس وجہ سے آپ کی مدد نہیں کر رہا ہوں) کیوںکہ آپ نے اس شخصیت سے جنگ کی ہے جو آپ سے زیادہ حضرت عثمان کے حق دار ہیں۔ حضرت معاویہ نے کہا: میں نسب میں حضرت عثمان سے زیادہ قریب ہوں، تو وہ حضرت عثمان کے مجھ سے زیادہ کیسے حق دار ہو سکتے ہیں؟ میں نے کہا: حضورﷺ نے حضرت علی اور حضرت عثمانؓ کے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا (اور آپ ان کے چچازاد بھائی ہیں) اور بھائی چچازاد بھائی سے زیادہ حق دار ہوا کرتا ہے۔ اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ میں مہاجرین سے لڑنا نہیں چاہتا۔ حضرت معاویہ نے کہا: کیا ہم مہاجرین نہیں ہیں؟ میں نے کہا: ضرور ہیں، لیکن کیا ہم دونوں جماعتوں سے الگ نہیں ہیں؟ اور ایک دلیل یہ ہے کہ ایک دفعہ حضورﷺ کی خدمت میں میں حاضر تھا اور بہت سے لوگ بھی وہاں تھے۔ حضورﷺ نے مشرق کی طرف سر اٹھا رکھا تھا (اور نگاہ بھی مشرق کی طرف تھی۔ حضور ﷺ نے ہمیں دیکھا) پھر اپنی نگاہ مشرق کی طرف لے گئے اور آپ نے فرمایا: اندھیری سیاہ رات کے ٹکڑوں جیسے فتنے تمہارے اوپر آئیں گے۔ پھر آپ نے بتایا کہ وہ فتنے بہت سخت ہوں گے اور وہ جلدی آنے والے ہیں اور وہ بہت برے ہوں گے۔ ان لوگوں میں سے میں نے حضورﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ فتنے کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے وائل! جب مسلمانوں میںدو تلواریں ٹکرانے لگیں (مسلمانوں کی دوجماعتیں آپس میں لڑ پڑیں) تو تم ان دونوں سے الگ رہنا۔ حضرت معاویہ نے کہا: کیا آپ شیعہ ہوگئے ہو؟ (یعنی حضرت علی کی طرف دار اور مددگار ہوگئے ہو؟) میں نے کہا: نہیں، میں تو تمام مسلمانوں کا بھلا چاہتا ہوں۔ حضرت معاویہ نے کہا: اگر میں نے آپ کی یہ باتیں پہلے سنی ہوتیں اور مجھے معلوم ہوتیں تو میں آپ کو یہاں نہ بلواتا۔ میں نے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت پر حضرت محمد بن مَسْلَمہ نے کیا کیا تھا؟ انھوں نے چٹان پرمار مار کر اپنی تلوار توڑ دی تھی۔ حضرت معاویہ نے کہا: یہ انصار تو ہیں ہی ایسے لوگ کہ ان کی ایسی باتیں برداشت کرلی جائیں گی۔ میں نے کہا: حضورﷺ کے اس فرمان کا ہم کیا کریں کہ جس نے انصار سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی، اور جس نے انصار سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔ پھر حضرت معاویہ