حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے کہا: آپ جونسا شہر چاہو اپنے لیے پسند کرلیں، کیوںکہ اب آپ حضرموت واپس نہیں جا سکتے ہیں۔ میں نے کہا: میرا قبیلہ ملکِ شام میں ہے اور میرے گھر والے کوفہ میںہیں۔ حضرت معاویہ نے کہا: آپ کے گھر والوں میں سے ایک آدمی قبیلہ کے دس آدمیوں سے بہتر ہوگا (اس لیے آپ کوفہ چلے جائیں)۔ میں نے کہا: میں حضر موت واپس گیا تھا لیکن وہاں واپس جانے سے مجھے کوئی خوشی نہیںتھی، کیوںکہ انسان جہاں سے ہجرت کر کے چلا جائے اسے وہاں شدید مجبوری کے بغیر واپس نہیں جانا چاہیے۔ حضرت معاویہ نے کہا: آپ کو کیا مجبوری تھی؟ میں نے کہا: حضورﷺ نے فتنوں کے بارے میں جو فرمایا تھا جسے میں ابھی ذکر کر چکا ہوں اس کی وجہ سے حضر موت چلا گیا تھا۔ لہٰذا جب آپ لوگوں میں اختلا ف پیدا ہو جائے گا تو ہم آپ لوگوں سے علیحدگی اختیار کر لیں گے اور جب آپ لوگ اکٹھے ہو جائیں گے تو ہم آپ لوگوں کے پاس آجائیں گے۔ حضرت معاویہ نے کہا: میں نے آپ کو کوفہ کا گورنر بنا دیا آپ وہاں چلے جائیں۔ میں نے کہا: نبی کریمﷺ کے بعد کسی کی طرف سے ولایت قبول نہیں کر سکتا۔ کیا آپ نے دیکھا نہیںکہ حضرت ابو بکر نے مجھے گورنر بنانا چاہا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا تھا، پھر حضرت عمر نے بنانا چاہا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا تھا، پھر حضرت عثمان نے بنانا چاہا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا تھا اور ان حضرات کی بیعت بھی میں نے نہیں چھوڑی تھی۔ جب ہمارے علاقے کے لوگ مرتد ہو گئے تھے تو حضرت ابو بکر کا میرے پاس خط آیا تھا جس کی وجہ سے میں محنت کرنے کھڑا ہوگیا تھا اور سارے علاقہ میں زور لگا یا اور گورنری کے بغیر ہی اﷲ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے تمام علاقہ والوں کو اسلام میں واپس فرما دیا تھا۔ پھر حضرت معاویہ نے حضرت عبد الرحمن بن اُمّ حکمؓ کو بلا کر کہا: تم کوفہ چلے جاؤ میں نے تمہیں وہاں کا گورنر بنا دیا ہے۔ اور حضرت وائل کو ساتھ لے جاؤ، ان کا اکرام کرنا اور ان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنا۔ اس پر حضرت عبد الرحمن نے کہا: آپ نے میرے ساتھ بدگمانی سے کام لیا۔ آپ مجھے اس انسان کے اکرام کا حکم دے رہے ہیں جس کا اکرام کرتے ہوئے میں نے حضورﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور خود آپ کو دیکھا ہے (لہٰذا آپ نہ بھی تاکید کریں تو بھی میں ان کا اکرام کروں گا)۔ ان کی اس بات سے حضرت معاویہ بہت خوش ہوئے۔ میں ان کے ساتھ کوفہ آیا۔ راوی کہتے ہیں: کوفہ آنے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی حضرت وائل کا انتقال ہوگیا۔1 حضرت ابو مِنہال ؓ کہتے ہیں: جب ابنِ زیاد کو (بصرہ) سے نکال دیا گیا تو شام میں مروان خلافت کا دعویٰ لے کر کھڑا ہوگیا، اور مکہ مکرّمہ میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے خلافت کا دعویٰ کر دیا، اور بصرہ میں ان (خارجی) لوگوں نے خلافت کا دعو یٰ کر دیا جن کو قاری کہا جاتا تھا۔ اس سے میرے والد صاحب کو بہت زیادہ غم ہوا۔ انھوں نے مجھ سے کہا: تیرا باپ نہ