حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ایک آدمی نے میرے خلیفہ بننے کی مخالفت کی تو؟ انھوں نے کہا: اگر ایک آدمی نے مخالفت کی تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور اُمت کے معاملے کو سدھارنے کے لیے ایک آدمی کو قتل کرنا پڑے تو یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے۔ انھوں نے فرمایا: میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ حضرت محمدﷺ کی اُمت نیزے کا دستہ پکڑے اور میں اس نیزے کا بھالا پکڑوں اور پھر ایک مسلمان کو قتل کیا جائے اور اس کے بدلے مجھے دنیا ومافیہا مل جائے۔3 حضرت قطن ؓ کہتے ہیں: ایک آدمی نے حضرت ابنِ عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: حضرت محمدﷺ کی اُمت کے لیے آپ سے زیادہ کوئی برا نہیں ہے۔ انھوں نے فرمایا: کیوں؟ اﷲ کی قسم! میں نے نہ تو ان کا خون بہایا ہے اور نہ ان میں پھوٹ ڈالی ہے اور نہ ان کی جماعت سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ اس آدمی نے کہا: اگر آپ (خلیفہ بننا) چاہیں تو آپ کے بارے میں دو آدمی بھی اختلاف نہ کریں گے۔ انھوں نے فرمایا: مجھے تو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ مجھے خلافت خود بخود ملے اور ایک آدمی کہے نہیں اور دوسرا کہے ہاں (یعنی اگر ایک آدمی بھی اختلاف کرے تو مجھے منظور نہیں ہے)۔1 حضرت قاسم بن عبد الرحمن ؓ کہتے ہیں: لوگوں نے پہلے فتنہ (جو کہ حضرت علی اور حضرت معاویہؓ کے درمیان واقع ہوا تھا) کے زمانے میں حضرت ابنِ عمرؓ سے کہا: کیا آپ باہر آکر جنگ میں حصہ نہیںلیتے؟ فرمایا: میں نے اس وقت جنگ کی تھی جب کہ بت حجرِ اسود اور بیت اﷲکے دروازے کے درمیان رکھے ہوئے تھے، یہاںتک کہ اﷲ تعالیٰ نے بتوں کو سرزمینِ عرب سے نکال دیا۔ اب میں اس بات کو بہت برا سمجھتا ہوں کہ میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنے والوں سے جنگ کروں۔ ان لوگوں نے کہا: اﷲ کی قسم! آپ کے دل میں یہ رائے نہیں ہے (صرف کہنے کو ہے) بلکہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ حضورﷺ کے صحابہ ایک دوسرے کو ختم کر دیں، پھر آپ کے علاوہ جب اور کوئی بچے گا نہیں تو لوگ خود ہی کہنے لگیں گے: امیر المؤمنین بنانے کے لیے عبد اﷲ بن عمر سے بیعت ہو جاؤ۔ انھوں نے فرمایا: اﷲ کی قسم! یہ بات بالکل میرے دل میں نہیں ہے، بلکہ میرے دل میں یہ ہے کہ جب تم لوگ کہو گے آؤ نماز کی طرف تو میں تمہاری بات مانوں گا، اور جب تم کہو گے آؤ کامیابی کی طرف تو میں تمہاری مانوں گا، اور جب تم الگ الگ ہو جاؤ گے تو میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا، اور جب تم اکٹھے ہو جاؤ گے تو میں تم سے الگ نہیں ہوں گا۔2 حضرت نافع ؓ کہتے ہیں: جن دنوں حضرت ابنِ زبیرؓ کی طرف سے خلافت کے لیے کوشش چل رہی تھی اور خوارج اور (شیعوں کے) فرقہ خشَبِیّہ کا زور تھا، ان دنوں کسی نے حضرت ابنِ عمرؓ سے کہا: آپ ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ بھی، حالاںکہ یہ تو ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ انھوں نے فرمایا: جو کہے گا: آؤ نماز کی طرف میں اس کی بات مان لوں گا، اور جو کہے گا: آؤ کامیابی کی طرف میں اس کی بات مان لوں گا، اور جو کہے گا: آؤ