حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس وقت تو میرے دل کی یہی کیفیت تھی، لیکن مرتے وقت میری یہ کیفیت بدل جائے تو اور بات ہے۔ پھر اَنصار میں سے ایک آدمی نے کہاکہ اس مسئلہ کا میرے پاس بہترین حل ہے اور اس مرض کی بہت عمدہ دوا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اے جماعتِ قریش! ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر آپ لوگوں میں سے ہو۔ اس کے بعد سب بولنے لگ گئے اور آوازیں بلند ہوگئیں اور ہمیں آپس کے اختلاف کا خطرہ ہوا، تو میں نے کہا: اے ابو بکر! آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں۔ چناںچہ انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ پہلے میں ان سے بیعت ہوا، پھر مہاجرین بیعت ہوئے، اس کے بعد اَنصار ان سے بیعت ہوئے اور یوں ہم حضرت سعد بن عبادہ پر غالب آگئے (کہ وہ امیرنہ بن سکے)۔ اس پر ان میں سے کسی نے کہا: ارے! تم نے تو سعد کو مار ڈالا۔ میں نے کہا: اللہ انھیں مارے! (یعنی جیسے انھوں نے اس موقع پر حق کی نصرت نہیں کی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ امیر بننے میں اُن کی نصرت نہ کرے) حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اس موقع پر ہم جتنے امور میں شریک ہوئے ان میں کوئی امر حضرت ابو بکر ؓ کی بیعت سے زیادہ کارآمد اور مناسب نہ پایا۔ (اور میں نے حضرت ابو بکر سے بیعت کا سلسلہ ایک دم اس لیے شروع کرادیا) کیوںکہ ہمیں ڈر تھا کہ بیعت کے بغیر ہم ان اَنصار کو یہاں چھوڑ کر چلے گئے تو یہ ہمارے بعد کسی نہ کسی سے بیعت ہو جائیں گے۔ پھر ہمیں (ان کاساتھ دینے کے لیے) یا تو ناپسندیدہ صورتِ حال کے باوجود ان سے بیعت ہوناپڑے گا، یا ہمیں ان کی مخالفت کرنی پڑے گی تو فساد کھڑا ہو جائے گا۔ (لہٰذا اب قاعدۂ کلیہ سن لو) جو آدمی مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی امیر سے بیعت ہو جائے گا تو اس کی یہ بیعت شرعاً معتبر نہ ہوگی اور نہ اس امیر کی بیعت کی کوئی حیثیت ہو گی، بلکہ اس بات کا ڈر ہے کہ(ان دونوں کے بارے میں حکم ِ شرعی یہ ہو کہ اگر یہ حق بات نہ مانیں تو ان) دونوں کو قتل کر دیا جائے۔ حضرت زُہری حضرت عروہ ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ دو آدمی جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ کو راستہ میں ملے تھے وہ حضرت عُویم بن ساعدہ اور حضرت مَعْن بن عدی ؓ تھے۔ اور حضرت سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے کہ جن صاحب نے کہاتھاکہ اس مسئلہ کا میرے پاس بہترین حل ہے وہ حضرت حُباب بن منذر ؓ تھے۔1 حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابۂ کرام کا قصہ اس طرح ہوا کہ حضور ﷺ کا انتقال ہوا تو ہم سے ایک آدمی نے آکر کہاکہ اَنصار سقیفۂ بنی ساعدہ میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے پاس جمع ہو چکے ہیں اور وہ بیعت ہو نا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر میں، حضرت ابو بکر اور حضرت ابو عبید ہ بن جرّ اح گھبرا کر اُن کی طرف چل پڑے کہ کہیں یہ اَنصار اِسلام میں نئی بات نہ کھڑی کر دیں۔ راستہ میں ہمیں اَنصار کے دو آدمی ملے جو بڑے سچے آدمی تھے: ایک حضرت عُویم بن ساعدہ ؓ، دوسرے