حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے بیعت ہو جائیں گے) اس پرحضرت عمر ؓ نے فرمایا: آج شام اِن شاء اللہ میں لوگوں میں کھڑے ہو کر بیا ن کروں گا اور لوگوں کو اس جماعت سے ڈرائوں گا جو مسلمانوں سے ان کا امرِ خلافت (یوں اچانک) چھینناچاہتے ہیں (یعنی بغیر مشورہ اور سوچ وبچار کے اپنی مرضی کے آدمی کو اہلیت دیکھے بغیر خلیفہ بنانا چاہتے ہیں)۔ حضرت عبد الرحمن ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ ایسا نہ کریں کیوںکہ موسم ِ حج میں گرے پڑے، کم سمجھ اور عام لوگ جمع ہو جا تے ہیں۔ جب آپ بیان کے لیے لوگوں میں کھڑے ہوں گے تو یہی آپ کی مجلس میں غالب آجائیں گے (اوریوں سمجھ دار،عقل مندآدمیوں کوآپ کی مجلس میں جگہ نہ ملے گی)۔ اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ آپ جو بات کہیں گے اسے یہ لوگ لے اُڑیں گے، نہ خود پوری طرح سمجھیں گے اور نہ اسے موقع محل کے مطابق دوسروں سے بیان کر سکیں گے۔ (لہٰذا ابھی آپ صبر فرمائیں) جب آپ مدینہ پہنچ جائیں (تو وہاں آپ یہ بیان فرمائیں) کیوںکہ مدینہ ہجرت کا مقام اور سنّتِ نبوی کا گھر ہے۔ لوگوں میں سے عُلمااور سرداروں کو الگ لے کر آپ جو کہنا چاہتے ہیں اطمینان سے کہہ لیں۔ وہ لوگ آپ کی بات کو پوری طرح سمجھ بھی لیں گے اور موقع محل کے مطابق اسے دوسروں سے بیان بھی کریں گے۔ حضرت عمر نے (میری بات کو قبول کرتے ہوئے) فرمایا: اگر میںصحیح سالم مدینہ پہنچ گیا تو (اِن شاء اللہ) میں اپنے سب سے پہلے بیان میں لوگوں سے یہ بات ضرور کہوں گا۔ (حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ) جب ہم ذی الحجہ کے آخری دنوں میں جمعہ کے دن مدینہ پہنچے تو میں سخت گرمی کی پروا کیے بغیر عین دوپہر کے وقت جلدی سے (مسجدِ نبوی) گیا تو میں نے دیکھاکہ حضرت سعید بن زید ؓ مجھ سے پہلے آکر منبر کے دائیں کنارے کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں ان کے برابرمیں گھٹنے سے گھٹنا ملا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ حضرت عمر تشریف لے آئے۔ میںنے حضرت عمر کو دیکھ کر کہا: آج حضرت عمر اس منبر پر ایسی بات کہیں گے جو آج سے پہلے اس پرکسی نے نہ کہی ہو گی۔ حضرت سعید بن زید ؓ نے میری اس بات کا انکار کیا اور کہاکہ میرا تو یہ خیال نہیں ہے کہ حضرت عمرآج ایسی بات کہیں جو اُن سے پہلے کسی نے نہ کہی ہو۔ (کیوںکہ دین تو حضور ﷺ کے زمانہ میں پورا ہو چکا اب کون نئی بات لاسکتاہے؟) چناںچہ حضرت عمر منبر پر بیٹھ گئے۔ (پھر مؤذّن نے اذان دی) جب مؤذّن خاموش ہو گیا تو حضرت عمر کھڑے ہوئے اور اللہ کی شان کے مطابق اللہ کی حمد وثنابیان کی۔ پھر فرمایا: اَما بعد! اے لوگو! میں ایک بات کہنے والا ہوںجس بات کو کہنا پہلے سے ہی میرے مقدر میں لکھا جا چکا ہے اور ہو سکتاہے یہ بات میری موت کا پیش خیمہ ہو۔ لہٰذا جو میری بات کو یاد رکھے اور اسے اچھی طرح سمجھ لے تو جہاں تک اس کی سواری اسے دنیا میں لے جائے وہاں تک کے تمام لوگوں میں میری