حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مختلف قبیلوں کے گرے پڑے لوگوں کو لے کر اپنی قوم کے پاس آئے ہو، اور آپ ان میں سے بہت سوں کو جانتے ہو اور بہت سوں کو جانتے بھی نہیں ہو۔ اور آپ ان لوگوں کے ذریعہ اپنی قوم سے قطع رحمی کرنا چاہتے ہو، اور ان کی بے عزّتی کر کے ان کا خون بہانا چاہتے ہو، اور ان کے مال پر قبضہ کرنا چاہتے ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا: میں تو اپنی قوم کے ساتھ صرف صلہ رحمی کرنے آیا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے دین سے بہتر دین اور ان کی زندگی سے بہتر زندگی ان کو عطا فرمائے۔ چناںچہ انھوں نے بھی واپس جا کر قریش کے سامنے مسلمانوں کی بڑی تعریف کی تو مشرکین کے ہاتھوں میں جو مسلمان قیدی تھے انھیں مشرکوں نے اور زیادہ تکلیفیں پہنچانی شروع کر دیں۔ حضورﷺ نے حضرت عمر ؓ کو بلا کر فرمایا: اے عمر! کیا (مکہ جا کر) تم اپنے مسلمان قیدی بھائیوں کو میرا پیغام پہنچانے کے لیے تیار ہو؟ انھوں نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! کیوںکہ اللہ کی قسم! مکہ میں اب میرے خاندان کا کوئی آدمی باقی نہیں رہا۔ اس مجمع میںاور بہت سے ساتھی ایسے ہیں جن کا مکہ میں کافی بڑا خاندان موجود ہے (اور خاندان والے اپنے آدمی کی حفاظت وحمایت کریں گے)۔ چناںچہ حضورﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو بلا کر مکہ مکرّمہ بھیج دیا۔ حضرت عثمان اپنی سواری پر سوار ہو کر چلے اور مشرکوں کے لشکر میں پہنچ گئے۔ مشرکوں نے ان کا مذاق اُڑایا اور ان سے برا سلوک کیا۔ پھر حضرت عثمان کے چچازاد بھائی اِبان بن سعید بن عاص نے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اپنے پیچھے زین پر بٹھا لیا۔ جب حضرت عثمان ان کے پاس پہنچے تو اِبان نے ان سے کہا: اے چچازاد بھائی! یہ کیا بات ہے؟ آپ مجھے بہت تواضع اور عاجزی والی شکل وصورت میں نظر آرہے ہو۔ ذرا لنگی ٹخنوں سے نیچے لٹکاؤ (تاکہ کچھ متکبرا نہ شان پیدا ہو)۔ انھوں نے آدھی پنڈلیوں تک لنگی باند ھ رکھی تھی۔ حضرت عثمان نے ان سے فرمایا: (میں لنگی نیچے نہیں کر سکتا، کیوںکہ) ہمارے حضرت کا لنگی باندھنے کا یہی طریقہ ہے۔ چناںچہ انھوں نے مکہ میں جا کر ہر مسلمان قیدی کو حضورﷺ کا پیغام پہنچا دیا۔ ادھر ہم لوگ (حدیبیہ میں) دوپہر کو قیلولہ کر رہے تھے کہ اتنے میں حضورﷺ کے منادی نے زور سے اعلان کیا کہ بیعت ہونے کے لیے آجاؤ ، بیعت ہونے کے لیے آجاؤ۔ روح القدس (حضرت جبرائیل ؑ) آسمان سے تشریف لائے ہیں۔ چناںچہ ہم سب لوگ حضور ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوگئے، اس وقت آپ کیکر کے در خت کے نیچے تھے اور ہم آپ سے بیعت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اسی واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے: {لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ}1 با لتحقیق اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ سے درخت (سمرہ) کے نیچے بیعت کر رہے تھے۔ چوںکہ اس وقت حضرت عثمان ؓ مکہ میں تھے اور یہاں موجود نہیں تھے اس لیے حضور ﷺ نے ان کی بیعت کے لیے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا کہ یہ عثمان کی بیعت ہوگئی۔ اس پر لوگوں نے کہا: (حضرت عثمان) ابو عبد اللہ کو مبارک