حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عورتوں کو خود قتل کر دینے کے بعد ہماری کیا زندگی ہوگی۔ یہ یہودی (زمانۂ جاہلیت میں) حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر ؓ کے حلیف تھے، اس لیے انھوں نے ان کے پاس آدمی بھیج کر ان سے حضورﷺ کے فیصلے پر اُترنے کے بارے میں مشورہ مانگا۔ انھوں نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ حضور ﷺ تمہارے ذبح کیے جانے کا فیصلہ کریں گے۔ (اس وقت تو وہ حضورﷺ کی بات بتا گئے، لیکن) بعد میں ان کو ندامت ہوئی جس پر وہ حضورﷺ کی مسجدِ نبوی میں گئے۔ اپنے آپ کو مسجد (کے ستون) سے باندھ دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔1 ایک روایت میں یہ ہے کہ بنو قریظہ نے کہا: اے ابو لبابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ ہم کیا کریں؟ کیوںکہ (حضور ﷺ سے) جنگ کرنے کی تو ہم میں طا قت نہیں ہے۔ تو حضرت ابو لبابہ نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا اور حلق پر انگلیاں پھیر کر انھیں بتا دیا کہ مسلمان انھیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ (اس وقت تو وہ حضورﷺ کا راز بتا گئے، لیکن) جب حضرت ابو لبابہ وہاں سے واپس ہوئے تو انھیں بہت ندامت ہوئی اور وہ سمجھ گئے کہ وہ بڑی آزمایش میں آگئے۔ اس لیے انھوں نے کہا: میں اس وقت تک حضورﷺ کے چہرۂ انور کی زیارت نہیں کروں گا جب تک میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ایسی سچی توبہ نہ کر لوں کہ اللہ تعالیٰ بھی فرما دیں کہ واقعی یہ دل سے توبہ کر رہا ہے۔ اور مدینہ واپس جا کر اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ لوگ بتلاتے ہیں کہ وہ تقریباً بیس دن بندھے رہے۔ جب حضرت ابو لبابہ حضورﷺ کو کچھ عرصہ نظر نہ آئے تو حضورﷺ نے فرمایا: کیا ابو لبابہ ابھی تک اپنے حلیفوں (کے مشورے) سے فارغ نہیں ہوئے؟ اس پر لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے تو سزا کے طور پر خود کو مسجد کے ستون سے باندھ رکھا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہ تو میرے بعد آزمایش میں آگئے۔ اگریہ (غلطی سرزد ہو جانے کے بعد) میرے پاس آجاتے تو میں ان کے لیے (اللہ سے) استغفار کرتا، لیکن جب وہ خود کو سزا کے طور پر ستون سے باندھ چکے ہیں تو اب میں بھی انھیں نہیں کھول سکتا، اللہ ہی ان کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔1 حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو چند دن نہ دیکھا تو ان کے بارے میں دریافت فرمایا (کہ وہ کہاں ہیں؟) تو ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ابھی اس کا پتا کر کے آتا ہوں۔ چناںچہ وہ صحابی حضرت ثابت کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ انھوں نے کہا: بڑا برا حال ہے، کیوںکہ مجھے اونچی آواز سے بولنے کی عادت ہے اور میری آواز حضورﷺ کی آواز سے اونچی ہو جاتی تھی۔ (اور اب اس بارے میں قرآن کی آیات نازل ہو چکی ہیں جن کے مطابق) میرے پہلے تمام اعمال برباد ہو چکے ہیں اور میں دوزخ والوں میں سے ہوگیا ہوں۔ ان صحابی نے حاضرِ خدمت ہو کر حضورﷺ کو بتایا کہ وہ یہ کہہ