حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے فرمایاہے: {لَیْْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْا}1 ایسے لوگوں پر جو ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو وہ کھاتے پیتے ہوں جب کہ وہ لوگ پرہیز رکھتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں پھر پر ہیز کرنے لگتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں پھر پرہیز کرنے لگتے ہوں اور خوب نیک عمل کرتے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں سے محبت رکھتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: آپ اس آیت کا مطلب غلط سمجھے ہیں۔ (اس آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ شراب حرام ہونے سے پہلے مسلمانوںنے جو شراب پی ہے اس میںگناہ نہیں ہے، کیوںکہ اس زمانہ میں شراب حلال تھی لیکن اب تو شراب حرام ہو چکی ہے، اس لیے) اگر آپ اللہ سے ڈرتے تو اس کی حرام کردہ چیز یعنی شراب سے بچتے۔ پھر حضرت عمر نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: قدامہ کو کوڑے لگانے کے بارے میں آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ لوگوں نے کہا: ہماری رائے یہ ہے کہ جب تک یہ بیمار ہیں انھیں کو ڑے نہ لگائے جائیں۔ اس پر حضرت عمر نے چند دن سکوت فرمایا۔ پھر ایک دن حضرت عمر نے ان کو کوڑے لگانے کا پختہ ارادہ کر لیا تو پھر لوگوں سے پوچھا کہ اب قدامہ کو کوڑے لگانے کے بارے میں آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ لوگوں نے کہا: ہماری رائے اب بھی یہی ہے کہ جب تک یہ بیمار ہیں انھیں کوڑے نہ لگائے جائیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: ان کوڑوں کے لگنے سے اگر یہ مر جائیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ مجھے اس حال میں موت آئے کہ یہ حد میری گردن میں پڑی ہو۔ میرے پاس پورا اور مضبوط کوڑا لاؤ۔ (چناںچہ کوڑا لایا گیا) اور حضرت عمر کے فرمان کے مطابق حضرت قدامہ کو کوڑے مارے گئے۔ اس پر حضرت قدامہ حضرت عمر سے ناراض ہوگئے اور ان سے بات چیت چھوڑ دی۔ پھر حضرت عمر ؓ حج کو گئے اور حضرت قدامہ بھی اس حج میں تھے اور وہ حضرت عمر سے ناراض ہی تھے۔ یہ دونوں حضرات جب حج سے واپس ہوئے اور حضرت عمر سُقْیا منزل پر اترے تو وہاں انھوں نے آرام فرمایا۔ جب نیند سے اٹھے تو فرمایا: قدامہ کو جلدی سے میرے پاس لاؤ۔ اللہ کی قسم! میں نے خواب میں ایک آدمی کو دیکھا جو مجھ سے کہہ رہا ہے قدامہ سے صلح کر لو، کیوںکہ وہ آپ کے بھا ئی ہیں۔ اس لیے انھیں جلدی سے میرے پاس لاؤ۔ جب لوگ انھیں بلانے گئے تو انھوں نے آنے سے انکارکر دیا۔ اس پرحضرت عمر نے فرمایا: وہ جیسے بھی آتے ہیں انھیں لے کر آؤ۔ (چناںچہ وہ آئے تو) حضرت عمرنے ان سے گفتگو فرمائی (انھیں راضی کیا) اور ان کے لیے استغفار کیا۔1 حضرت یزید بن عبید اللہ ؓ اپنے بعض ساتھیوں سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ جنازہ کے ساتھ جا بھی رہا ہے اور ہنس بھی رہا ہے۔ تو فرمایا کہ تم جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے بھی ہنس رہے ہو؟ اللہ