حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی طرف آنے لگے) بعض صحابہ ؓ نے اپنی سواری کو آواز کی طرف موڑنا چاہا، لیکن گھبراہٹ اور پریشانی کی وجہ سے وہ سواری نہ مڑ سکی تو وہ اس سواری سے اُتر گئے اور سواری کو ویسے ہی چھوڑ دیا اور زرہ کو اُتار پھینکا اور تلوار اور ڈھال لے کر اس آواز کی طرف تیزی سے چل پڑے۔ اس طرح حضورﷺ کے پاس ان میں سے سو آدمی جمع ہوگئے۔ تو آپ نے دشمن کے حالات کا اندازہ لگائے بغیر ہی ان سے جنگ شروع کر دی اور بڑے گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ پہلی آواز تو انصار کے لیے لگوائی گئی تھی، آخرمیں خزرج قبیلہ کے لیے لگوائی، کیوںکہ یہ لوگ جم کر لڑنے والے تھے۔ پھر حضورﷺ نے اپنی سواریوں کی طرف جھانکا تو آپ کی نظر اس جگہ پڑی جہاں خوب زورشور سے تلواریں چل رہی تھیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: اب تنّور گرم ہوا ہے یعنی خوب گھمسان کا رَن پڑا ہے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں: (ان سو آدمیوں نے جنگ کی اور اللہ نے فورا ً فتح عطا فرما دی) اللہ کی قسم! بھاگ کر جانے والے لوگ ابھی واپس نہیں آئے تھے کہ کافر قیدی حضورﷺ کے پاس گرفتار ہو کر پہنچ چکے تھے۔ ان قیدیوں کے ہاتھ پیچھے رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ کافروں میں بہت سے قتل ہوئے اور باقی سب شکست کھا کر بھاگ گئے۔ اور ان کافروں کا سارا مال، سامان، آل اولاد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطورِ غنیمت کے دے دیا۔2 حضرت عباسؓ اسی حدیث کو اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے (مجھ سے) فرمایا: اے عباس! کیکر (کے درخت کے نیچے بیعت ہونے) والوں کو آواز لگا کربلاؤ۔ (چناںچہ میں نے آواز لگائی) تو وہ میر ی آواز سن کر ایسی تیزی سے مڑے جیسے گائے اپنے بچھڑے کی طرف پلٹتی ہے، اور وہ سب یَا لَبَّیْکَاہْ یَا لَبَّیْکَاہْ کہہ رہے تھے۔1 حضرت عِکْرِمہؓ فرماتے ہیں: جب حضورﷺ نے (حدیبیہ میں) مکہ والوں سے صلح کی تو قبیلہ خزاعہ والے زمانۂ جاہلیت سے ہی حضورﷺ کے حلیف چلے آرہے تھے، اورقبیلہ بنو بکر والے قریش کے حلیف تھے۔ اس لیے حضورﷺ کی صلح کے اندر قبیلہ خزاعہ والے بھی آگئے، اور قریش کی صلح میں بنو بکر داخل ہوگئے۔ قبیلہ خزاعہ اور بنو بکر کے درمیان پہلے سے لڑائی چلی آرہی تھی۔ اس صلح کے بعد قریش نے ہتھیار اور غلہ سے بنو بکر کی مدد کی اور بنو بکر نے خزاعہ پر اچانک چڑھائی کر دی اور ان پر غالب آکر ان کے کچھ آدمی قتل کر دیے۔ اس پر قریش کو یہ ڈر ہوا کہ وہ صلح کو توڑ چکے ہیں اس لیے انھوں نے ابو سفیان سے کہا: محمد (ﷺ) کے پاس جاؤ اورپورا زور لگاؤ کہ یہ معاہدہ برقرار رہے اور صلح باقی رہے۔ ابو سفیان مکہ سے چلے اور مدینہ پہنچے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ابو سفیان تمہارے پاس آیا ہے اس کا کام بنے گا تو نہیں، لیکن یہ خوش ہو کر واپس جائے گا۔ چناںچہ ابو سفیان حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے ابو بکر! آپ اس معاہدہ کو برقرار اور صلح کو باقی رکھیں۔ حضرت ابو بکر نے کہا: اس کا اختیار مجھے نہیں بلکہ اس کا اختیار تو اللہ اور اس کے رسول