حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جماعت والوں نے کام تو اچھا کیا ہے لیکن انھیں ثواب نہیں ملے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: {اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِلا اُولٰٓـئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o}۔2 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع پر فرمایا: کوئی بھی راستہ میں عصر کی نماز نہ پڑھے بلکہ سب بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھیں۔ (چناںچہ صحابہ بنو قریظہ کی طرف چل پڑے) بعض صحابہؓ ابھی راستہ میں ہی تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا۔ تو بعض لوگوں نے کہا: ہم تو عصر کی نماز وہاں بنو قریظہ پہنچ کر ہی پڑھیں گے، اور بعض لوگوں نے کہا: ہم تو یہاں راستہ میں ہی نماز پڑھ لیں گے، کیوںکہ حضورﷺ کا مقصد (یہ تھا کہ ہم تیز چلیں) یہ نہیں تھا کہ راستہ میں چاہے وقت ہو جائے پھر بھی ہم نماز نہ پڑھیں۔ اس کا حضورﷺ سے تذکرہ کیا گیا۔ حضورﷺ نے ان دونوں قسم کے حضرات میں سے کسی کو بھی کچھ نہ کہا۔1 حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں: جب حضورﷺ غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو آپ نے (ہتھیار اتار دیے تھے، پھر) دوبارہ ہتھیار لگا لیے اور طہارت فرمائی۔ دُحیم راوی کی حدیث میں یہ ہے کہ (حضورﷺ نے غزوۂ خندق سے واپس آکر ہتھیار اتار دیے تھے) پھر حضرت جبرائیل ؑ نے آسمان سے حاضرِ خدمت ہو کر کہا: آپ لڑنے والے دشمن (بنو قُریظہ) کے خلاف اپنے مددگار جمع کر لیں۔ کیا بات ہے؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں، حالاںکہ ہم (فرشتوں نے) ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے۔ یہ سنتے ہی حضور ﷺ گھبرا کر اٹھے اور لوگوں کو بڑی تاکید سے یہ حکم دیا کہ وہ سب بنو قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھیں۔ چناںچہ صحابہ ہتھیار لگا کر چل پڑے اور بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے ہی سورج غروب ہونے لگا۔ اس پر صحابہ کا نمازِ عصر کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے کہا: نماز پڑھ لو، حضورﷺ کا یہ مقصد نہیں تھا کہ تم نماز (وقت پر پڑھنا) چھوڑ دو۔ اور کچھ لوگوں نے کہا: حضورﷺ نے ہمیں بہت زور سے یہ تاکید فرمائی تھی کہ ہم بنو قریظہ پہنچ کر ہی نماز پڑھیں اس لیے ہم حضورﷺ کا حکم مان کر نماز نہیں پڑھ رہے ہیں، لہٰذا ہمیں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ چناںچہ ایک جماعت نے راستہ میں عصر کی نماز ایمان کے ساتھ ثواب کی امید میں پڑھ لی، اور دوسری جماعت نے نہ پڑھی بلکہ بنو قریظہ پہنچ کر سورج غروب ہونے کے بعد ایمان کے ساتھ ثواب کی امید میں پڑھ لی۔ حضورﷺ نے (معلوم ہونے پر) دونوں جماعتوں میں سے کسی کو کچھ نہ کہا۔1 حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں: جب حضورﷺ نے جنگِ حنین کے دن دیکھا کہ لوگ میدان چھوڑ کر جا رہے ہیں تو فرمایا: اے عباس! زور سے یہ آواز لگاؤ، اے انصار کی جماعت! اے حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت ہونے والو! (چناںچہ حضرت عباس ؓ نے زور سے یہ آواز لگائی) جس پر انصار نے فوراً جواب میں کہا: لبیک حاضر ہیں، لبیک حاضر ہیں۔ (اور آواز