حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، اور اسے دوسرے مہینوں کی طرح عام مہینہ بنا دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی: {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِط قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌط وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌ م بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ق وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِج وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ}1 لوگ آپ سے شہرِ حرام میں قتال کرنے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ آپ فرما دیجیے کہ اس میں خاص طور پر (یعنی عمداً) قتال کرنا جرمِ عظیم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے روک ٹوک کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور مسجدِ حرام (کعبہ) کے ساتھ اور جو لوگ مسجدِ حرام کے اہل تھے ان کو اس سے خارج کر دینا جرمِ عظیم ہیںاللہ تعالیٰ کے نزدیک، اور فتنہ پردازی کرنا اس قتلِ خاص سے بدرجہا بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کو نہ ماننا قتل سے بھی بڑا گناہ ہے ‘‘۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورﷺ نے تجارتی سامان تو لے لیا، لیکن قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ (نخلہ جانے والے) مسلمانوں نے کہا: (یا رسول اللہ!) کیا آپ کو اُمید ہے کہ ہمیں اس غزوہ پر ثواب ملے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرما دی: {اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا} سے لے کر {اُولٰٓـئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ}آخر تک۔2 حقیقتاً جو لوگ ایمان لائے ہوں اور جن لوگوں نے راہِ خدا میں ترکِ وطن کیا ہو اور جہاد کیا ہو ایسے لوگ تو رحمتِ خداوندی کے امیدوار ہوا کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ (اس غلطی) کو معاف کر دیں گے اور تم پر رحمت کریں گے۔ اس غزوہ میں جانے والے آٹھ آدمی تھے اور ان کے امیر حضرت عبد اللہ بن جحشؓ نویں آدمی تھے۔1 حضرت جُندب بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے ایک جماعت بھیجی اور ان کا امیر حضرت عبیدہ بن حارثؓکو بنایا۔ جب حضرت عبیدہ چلنے لگے توحضورﷺ کی محبت کے غلبہ میں (جدائی کی وجہ سے) رونے لگے۔ حضورﷺ نے ان کی جگہ دوسرے کو بھیج دیا جن کا نام حضرت عبد اللہ بن جحشؓ تھا اور انھیں ایک خط لکھ کر دیا۔ اور حضورﷺ نے انھیں حکم دیا کہ مدینہ سے فلاں جگہ جائیں اور وہاں جا کر یہ خط کھول کر پڑھیں اور پھر اس میں جہاں جانے کو لکھا ہے وہاں چلے جائیں، اور اس جگہ پہنچنے سے پہلے یہ خط نہ پڑھیں۔ اور یہ بھی فرمایا: اپنے ساتھ کسی کو آگے جانے پر مجبور نہ کرنا۔ چناںچہ جب حضرت عبد اللہ بن جحش اس جگہ پہنچے تو انھوں نے وہ خط پڑھا اور خط پڑھ کر إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَپڑھی اور یہ کہا: میں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات سنوں گا اور مانوں گا۔ ان کے ساتھیوں میں سے دو حضرات واپس چلے گئے اور باقی سب ان کے ساتھ آگے گئے۔ ان حضرات کو ابن الحضرمی ملا تو انھوں نے اسے قتل کر دیا، لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ واقعہ رجب کا ہے یا جُمادی الثانیہ کا۔ مشرکوں نے کہا: مسلمانوں نے شہرِ حرام یعنی رجب میں قتل کیا ہے۔ اس پر آیت نازل ہوئی:{ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِط قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ} سے لے کر {وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ} تک۔ا س پر بعض مسلمانوں نے کہا: اگرچہ اس