حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وہ خط کھولا اور اسے پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں سے چل کر مقام ِ نخلہ پر پہنچو اور قریش کے بارے میں جو خبریں تمھیں پہنچیں تم وہ لے کر ہمارے پاس آؤ۔ خط پڑھ کر حضرت عبد اللہ بن جحش نے اپنے ساتھیوں سے کہا: میں تو اللہ کے رسولﷺ کی بات سنوں گا بھی اور مانوں گا بھی۔ تم میں سے جسے شہادت کا شوق ہو وہ تو میرے ساتھ چلے میں تو وہاں جا رہا ہوں اور حضورﷺ کے حکم کو پورا کروں گا، اور جسے شوق نہ ہو وہ واپس چلا جائے، کیوںکہ حضورﷺ نے مجبور کر کے ساتھ لے جانے سے مجھے منع کیا ہے۔ لیکن وہ تمام صحابہ ان کے ساتھ آگے نخلہ گئے (ان میں سے کوئی واپس نہ گیا)۔ جب یہ حضرات بحران پہنچے تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عتبہ بن غزوان ؓ کا اونٹ گم ہوگیا جس پر یہ دونوں حضرات باری باری سوار ہوتے تھے۔ یہ حضرات اونٹ ڈھونڈنے کے لیے پیچھے رہ گئے اور باقی لوگ چل کر مقام ِ نخلہ پہنچ گئے۔ عمرو بن حضرمی، حکم بن کیسان، عثمان بن عبد اللہ اور مغیرہ بن عبد اللہ ان کے پاس سے گذرے۔ یہ لوگ اپنا تجارتی سامان، چمڑا اورکشمش طائف سے لے کر آرہے تھے۔ جب صحابہ نے ان کفارِ مکہ کو دیکھا تو حضرت واقد بن عبداللہؓ کے سر کے بال منڈے ہوئے تھے۔ انھوں نے ان کفار کی طرف جھانکا۔ جب کفار نے دیکھا کہ ان کا سر منڈا ہوا ہے تو انھوں نے کہا: یہ عمرہ کر کے آرہے ہیں، اس لیے تمھیں ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے (یہ لڑنے نہیں آئے)۔ یہ رجب کا آخری دن تھا (اور رجب اشہر حُرم میں داخل ہے، یہ بھی ان چار مہینوں میں سے ہے جن میں کفارِ عرب آپس میں لڑتے نہیں تھے) اس لیے حضورﷺ کے صحابہؓ نے آپس میں ان کفار کے بارے میں مشورہ کیا کہ اگر تم ان کافروں کو آج قتل کروگے تو شہرِ حرام یعنی رجب میں قتل کرو گے (جو کہ تمام عربوں کے دستور کے خلاف ہوگا)، اور اگر انھیں چھوڑ دو گے تو یہ آج حرم میں داخل ہو کر محفوظ ہوجائیں گے (کہ حدودِ حرم کے اندر کسی کو قتل کرنا جائز نہیں ہے)۔ اس لیے حضراتِ صحابہ اس پر متفق ہوگئے کہ انھیں آج ہی قتل کر دیا جائے۔ چناںچہ حضرت واقد بن عبد اللہ نے عمرو بن حضرمی کو تیر مار کر قتل کر دیا اور عثمان بن عبد اللہ اور حکم بن کیسان کو گرفتار کر لیا ۔ مغیرہ بھاگ گیا یہ حضرات اسے پکڑ نہ سکے۔ ان کافروں کے تجارتی قافلہ پر بھی ان حضرات نے قبضہ کر لیا اور دو قیدیوں اور اس تجارتی سامان کو لے کر یہ حضرات حضور ﷺ کی خدمت میں واپس پہنچے۔ حضورﷺ نے ان سے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے تو تمھیں شہرِ حرام میں لڑنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر حضورﷺ نے دونوں قیدیوں اور اس تجارتی سامان کو روک دیا اور اس میں سے کوئی چیز نہ لی۔ حضورﷺ کا یہ فرمان سن کر ان حضرات کو بہت ہی زیادہ ندامت ہوئی اور وہ یوں سمجھے کہ ہم تو اب ہلاک ہوگئے، اور ان کو مسلمان بھائیوں نے سختی سے ڈانٹا۔ اور جب قریش کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انھوں نے کہا: محمد ( ؑ) نے شہرِ حرام میں خون بہایا ہے اور اس مہینے میں مال پر قبضہ کیا ہے اور ہمارے آدمیوں کو قید کیا ہے اور شہرِ حرام کی بے حرمتی کی