حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
تشریف لے گئے اور حضرت یزید کے ہاں پہنچ کر انھیں سلام کیا اور ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی، انھوں نے اجازت دی۔ حضرت عمر اندر تشریف لے گئے تو حضرت یزید کا رات کا کھانا لایا گیا اور وہ ثرید اور گوشت لے کر آئے۔ حضرت عمر نے ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ پھربھنا ہوا گوشت دسترخوان پر لایا گیا۔ حضرت یزید نے تو اس گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا، لیکن حضرت عمر نے اپنا ہاتھ روک لیا اور فرمایا: اے یزید بن ابی سفیان! ہائے اللہ۔ کیا ایک کھانے کے بعد دوسرا کھانا؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میںمیری جان ہے! اگر تم حضورﷺ اور اُن کے صحابہ ؓ کے طریقۂ زندگی سے ہٹ جاؤ گے تو تمھیں بھی ان کے راستہ سے ہٹا دیا جائے گا (جو کہ جنت کے اعلیٰ درجات کو جاتا ہے)۔1 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ ایک کوڑی کے پاس سے گزرے تو اس کے پاس رک گئے۔ جب آپ نے محسوس کیا کہ آپ کے ساتھیوں کو اس کی گندگی سے ناگواری ہو رہی ہے تو فرمایا: یہ ہے تمہاری وہ دنیا جس کا تم لالچ کرتے ہو، یا فرمایا: جس پر تم بھروسہ کرتے ہو۔2 حضرت سلمہ بن کلثوم ؓ کہتے ہیں: حضرت ابو الدرداء ؓ نے دمشق میں ایک اونچی عمارت بنائی۔ حضرت عمر بن خطّاب ؓکو مدینہ منوّرہ میں اس کی اطلاع ملی تو حضرت ابو الدرداء کو یہ خط لکھا: اے عویمر بن اُمّ عویمر! کیا تمھیں روم وفارس کی عمارتیں کافی نہیں ہیں کہ تم اور نئی عمارتیں بنانے لگ گئے ہو؟ اور اے حضرت محمدﷺ کے صحابہ! (ہر کام سوچ سمجھ کر کیا کرو، کیوںکہ) تم دوسروں کے لیے نمونہ ہو (لوگ تمھیں جیسا کرتے ہوئے دیکھیں گے ویسا ہی کرنے لگ جائیں گے)۔3 حضرت راشد بن سعد ؓکہتے ہیں: حضرت عمر ؓ کو خبر ملی کہ حضرت ابو الدرداء ؓ نے حمص میں دروازے پر ایک چھجہ بنایا ہے۔ توحضرت عمر نے انھیں یہ خط لکھا: اے عویمر! روم والوں نے جو تعمیرات کی ہیں کیا وہ دنیا کی زیب وزینت کے لیے تمھیں کافی نہیں تھیں؟ حالاںکہ اللہ تعالیٰ نے تو دنیا کو اُجاڑنے یعنی سادگی کا حکم دے رکھا ہے۔1 ابو نعیم کی روایت میں مزید یہ ہے کہ روم والوں نے جو تعمیرات کی ہیں کیا وہ دنیا کی زیب وزینت اور نئی عمارتیں بنانے کے لیے کافی نہیں تھیں؟ حالاںکہ اللہ تعالیٰ نے تو دنیا کے ویران ہونے کا بتایا ہے۔ جب تمھیں میرا یہ خط ملے تو فوراً حمص سے دمشق چلے جانا۔ حضرت سفیان راوی کہتے ہیں: حضرت عمر ؓ نے یہ حکم ان کو بطورِ سزا کے دیا تھا۔2 حضرت یزید بن ابی حبیب ؓ کہتے ہیں: مصر میں سب سے پہلے حضرت خارجہ بن حذافہؓ نے بالاخانہ بنایا تھا۔ حضرت عمر بن خطّاب ؓکو جب اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے حضرت عمرو بن عاص ؓکو یہ خط لکھا: