حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہونے والوں میں سے بڑے درجے کے ہیں، اور مہاجرین واَنصار میں سے شروع زمانے کے ہیں۔ اگر آپ لو گ ان سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ یہ جبّہ پہننا چھوڑ دیں اور اس کے بجا ئے کسی نرم کپڑے کا عمدہ جبّہ بنالیں، جس کے دیکھنے سے لوگوں پر رعب پڑے، اور صبح وشام ان کے سامنے کھانے کے بڑے بڑے پیالے لائے جائیں جن میں سے خود بھی کھائیں اور مہاجرین وانصار میں سے جو حاضر ہوں ان کو بھی کھلائیں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔ سب لوگوں نے کہا: حضرت عمر سے یہ بات صرف دو آدمی کر سکتے ہیں یا تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ کرسکتے ہیں، کیوںکہ وہ حضرت عمر کے سامنے سب سے زیا دہ جرأت سے بات کرتے ہیں اور پھر وہ حضرت عمر کے خسر بھی ہیں۔ یا پھر ان کی صاحب زادی حضرت حفصہ ؓ کرسکتی ہیں، کیوںکہ وہ حضورﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں اور اسی نبوی نسبت کی وجہ سے حضرت عمر اُن کا بہت احترام کرتے ہیں۔ چناںچہ ان حضرات نے حضرت علی ؓ سے بات کی۔ حضرت علی نے کہا: میں حضرت عمر سے یہ بات نہیں کر سکتا۔ آپ لوگ حضورﷺ کی ازواجِ مطہّرات کے پاس جاؤ، کیوںکہ وہ تمام مسلمانوں کی مائیں ہیں، وہ حضرت عمر کے سامنے جرأت سے بات کر سکتی ہیں۔ چناںچہ ایک موقع پر حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ؓ اکٹھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان حضرات نے جاکر ان دونوں کی خدمت میںاپنی درخواست پیش کی (کہ حضرت عمر ؓ سے یہ بات کریں)۔ اس پر حضرت عائشہ نے کہا: میں ان کی خدمت میں یہ مطالبہ پیش کرتی ہوں۔ حضرت حفصہ نے کہا: میرے خیال میں تو حضرت عمر کبھی ایسا نہیں کریں گے، آپ ان سے بات کر کے دیکھ لیں آپ کو پتہ چل جائے گا۔ چناںچہ دونوں امیرالمؤمنین کی خدمت میں گئیں تو انھو ں نے ان دونوں کو اپنے قریب بٹھایا۔ حضرت عائشہ نے کہا: اے امیرالمؤمنین! اگر اجا زت ہو تو میں آپ سے کچھ بات کروں؟ حضرت عمر نے کہا: اے اُمّ المؤمنین! ضرور کریں۔ حضرت عائشہ نے کہا: حضورﷺ اپنے راستے پر چلتے رہے اور آخرکار اللہ تعالیٰ کی جنت اور خوشنودی ان کو حاصل ہوگئی، نہ آپ دنیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی دنیا آپ کے پاس آئی۔ اور پھر اسی طرح ان کے بعد حضرت ابو بکر ؓ ان کے راستے پر چلے اور انھوں نے حضور ﷺ کی سنتوں کو زندہ کیا اور جھٹلانے والوں کو ختم کیا اور اہلِ باطل کے تمام دلائل کا منہ توڑ جواب دیا۔ انھوں نے تمام رعایا میں انصاف کیا اور مال سب میں برابر تقسیم کیا اور مخلوق کے ربّ کو راضی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت اور خوشنودی کی طرف اٹھا لیا اور رفیقِ اعلیٰ میں اپنے نبی کے پاس پہنچا دیا۔ (رفیقِ اعلیٰ سے مراد حضرات انبیائے کرام ؑ کی جماعت ہے جو اعلیٰ علیّیّن میں رہتے ہیں) نہ وہ دنیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی دنیا ان کے پا س آئی۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں کسریٰ اور قیصر کے خزانے اور ملک فتح کروائے ہیں، اور ان دونوں کے خزانے وہاں سے آپ کی خدمت میں پہنچا دیے گئے ہیں، اور مشرق ومغرب کے آخری علاقے بھی آپ کے