حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوئے فرمایا ہے اور یہ آیت آخر تک تلاوت فر مائی: {زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ}1 خوش نما معلوم ہوتی ہے (اکثر) لوگوں کو محبت مرغوب چیزوں کی (مثلاً) عورتیں ہوئیں، بیٹے ہوئے، لگے ہوئے ڈھیرسونے اور چاندی کے، نمبر (یعنی نشان) لگے ہوئے گھوڑے ہوئے، (یا دوسرے) مویشی ہوئے اور زراعت ہوئی، (لیکن) یہ سب استعمالی چیزیں ہیں دنیوی زندگانی کی اور انجام کار کی خوبی تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور (اے اللہ!) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: {لِکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَا اٰتٰـکُمْ}2 تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے تم اس پر رنج (اتنا) نہ کرو۔ اور تاکہ جو چیز تم کوعطا فرمائی ہے اس پر اِتراؤ نہیں۔ (اے اللہ!) جن مر غوب چیزوں کی محبت ہمارے دلوں میں بھلی اور خوش نما کر دی گئی ہے ان سے خوش ہونے کو چھوڑنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اے اللہ! ہمیں ان چیزوں کو حق میں صحیح جگہ خرچ کر نے والا بنا اور میں ان کے شر سے تیری پنا ہ مانگتا ہوں۔ اتنے میں ایک صاحب حضرت عمر کے بیٹے عبد الرحمن بن بُہَیَّہ کو اٹھا لائے۔ (بُہَیَّہ حضرت عمر کی باندی تھیں جن سے عبدالرحمن پیدا ہوئے تھے۔ بعض حضرات اس باندی کا نام لُہَیَّہ بتاتے ہیں) اس بچے نے کہا: ابا جان! مجھے ایک انگوٹھی دے دیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: جا، اپنی ماں کے پاس جا! وہ تجھے ستّو پلائے گی۔ راوی کہتے ہیں: اللہ کی قسم! حضرت عمر ؓ نے اپنے اس بیٹے کو کچھ نہیں دیا۔3 حضرت اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں: ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کے پاس بحرین سے مشک اور عنبر آیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی عورت مل جائے جو تولنا اچھی طرح جانتی ہو اور وہ مجھے یہ خوش بو تول دے تاکہ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کرسکوں۔ ان کی بیوی حضرت عاتکہ بنتِ زید بن عمرو بن نفیل ؓ نے کہا: میں تولنے میں بڑی ماہر ہوں، لایئے میں تول دیتی ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا: نہیں، تم سے نہیں تلوانا۔ انھوں نے کہا: کیوں؟ حضرت عمر نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ تواسے اپنے ہاتھوں سے ترازو میں رکھے گی (یوں کچھ نہ کچھ خوش بو تیرے ہاتھوں کو لگ جائے گی۔ اور کنپٹی اور گردن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) اور یوں تو اپنی کنپٹی اور گر دن پر اپنے ہاتھ پھیرے گی، اس طرح تجھے مسلمانوں سے کچھ زیادہ خوش بو مل جائے گی۔1 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے ایک لڑکی کو دیکھا جو کمزوری کی وجہ سے لڑکھڑا کر چل رہی تھی۔ حضرت عمر نے پوچھا: یہ لڑکی کون ہے؟ تو (ان کے بیٹے) حضرت عبد اللہ نے کہا: یہ آپ کی بیٹی ہے۔ حضرت عمر نے پوچھا: یہ میری کون سی بیٹی ہے؟ حضرت عبد اللہ نے کہا: یہ میری بیٹی ہے۔ حضرت عمر نے پوچھا: یہ اتنی کمزور کیوں ہے؟