حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عبد اللہ نے کہا: آپ کی وجہ سے، کیوںکہ آپ اسے کچھ نہیں دیتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: اے آدمی! اللہ کی قسم! میں تمھیں تمہاری اولاد کے بارے میں دھوکہ میں نہیںرکھنا چاہتا۔ (خود کما کر) تم اپنی اولادپر خوب خرچ کرو (میںبیت المال میں سے نہیں دوںگا)۔ 2 حضرت عاصم بن عمر ؓ فرماتے ہیں: جب حضرت عمر ؓ نے میری شادی کی تو ایک مہینہ تک اللہ کے مال میں سے (یعنی بیت المال میں سے) مجھے خرچ دیتے رہے۔ پھر اس کے بعد حضرت عمر نے (اپنے در بان) یرفا کو مجھے بلانے بھیجا۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے فرمایا: میں خلیفہ بننے سے پہلے بھی یہی سمجھتا تھا کہ میرے لیے بیت المال سے اپنے حق سے زیادہ لینا جائز نہیں، اور اب خلیفہ بننے کے بعد یہ مال میرے لیے اور زیادہ حرام ہوگیا ہے، کیوںکہ اب یہ میرے پاس بطورِ امانت ہے، اور میں تمھیں اللہ کے مال میں سے ایک مہینہ خرچ دے چکا ہوں، اب تمھیں اس میں سے اور نہیں دے سکتا ہوں۔ ہاں! میں تمہاری مدد اس طرح کر سکتا ہوں کہ غابہ میں میرا جو باغ ہے تم اس کا پھل کاٹ کر بیچ دو۔ پھر (اس کے پیسے لے کر) اپنی قوم کے کسی تاجر کے پاس جاکر کھڑے ہوجاؤ، اور دیکھو جب وہ کوئی چیز خریدنے لگے تو تم اس کے ساتھ شراکت کر لو (اس سے جو نفع ہو اس سے) خرچہ لے کر اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے رہو۔1 حضرت مالک بن اَوس بن حَدَثان ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ کے پاس روم کے بادشاہ کا قاصد آیا۔ حضرت عمر کی بیوی نے ایک دینا ر اُدھار لے کرعطر خریدا اور شیشیوں میں ڈال کر وہ عطر اس قاصد کے ہاتھ روم کے بادشاہ کی بیوی کو ہدیہ میں بھیج دیا۔ جب یہ قاصد بادشاہ کی بیوی کے پاس پہنچا اور اسے وہ عطر دیا تو اس نے وہ شیشیاں خالی کر کے جواہرات سے بھر دیں اور قاصد سے کہا: جاؤ یہ حضرت عمر بن خطّاب کی بیوی کو دے آؤ۔ جب یہ شیشیا ں حضرت عمر کی بیوی کے پاس پہنچیں تو انھوں نے شیشیوں سے وہ جو اہرات نکال کر ایک بچھونے پر رکھ دیے۔ اتنے میں حضرت عمر بن خطّاب گھر آگئے اور انھوں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ ان کی بیوی نے ان کو سارا قصہ سنایا۔ حضرت عمر نے وہ تمام جواہرات لے کر بیچ دیے اور ان کی قیمت میں سے صرف ایک دینا ر اپنی بیوی کو دیا اور باقی ساری رقم مسلما نوں کے لیے بیت المال میں جمع کرادی۔2 حضرت ابنِ عمر ؓ فر ماتے ہیں: ایک مر تبہ میں نے کچھ اُونٹ خریدے اور ان کو بیت المال کی چراگاہ میں چھوڑ آیا۔ جب وہ خو ب موٹے ہوگئے تو میں انھیں (بیچنے کے لیے بازار) لے آیا۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ بھی بازار تشریف لے آئے اور انھیں موٹے موٹے اُونٹ نظر آئے تو انھوں نے پوچھا: یہ اُونٹ کس کے ہیں؟ لوگوں نے انھیں بتایا کہ یہ حضرت عبد اللہ بن عمر کے ہیں۔ تو فرمانے لگے! اے عبد اللہ بن عمر! واہ واہ ! امیر المؤمنین کے بیٹے کے کیاکہنے! میں دوڑتا ہوا آیا اور