حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عثمان بن عبید اللہ بن عثمان ؓ کے لیے آٹھ سو مقرر کیے، یہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ کے بھائی ہیں۔ اور حضرت نضر بن انس ؓ کے لیے دو ہزار مقرر کیے، تو حضرت عمر سے حضرت طلحہ نے کہا کہ آپ کے پاس اسی جیسے (حضرت عثمان بن عبید اللہ) ابنِ عثمان آئے تو اس کے لیے آپ نے آ ٹھ سو مقرر کیے اور آپ کے پاس اَنصار کا ایک لڑکا یعنی حضرت نضر بن انس آیا اس کے لیے آپ نے دو ہزار مقرر کر دیے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اس لڑکے یعنی حضرت نضر کے والد سے میری ملاقات جنگِ اُحُد کے دن ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے حضور ﷺ کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا: میرا تو خیال یہی ہے کہ حضور ﷺ کو (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) شہیدکر دیا گیا ہے۔ یہ سنتے ہی انھوں نے اپنے بازو چڑھائے اور اپنی تلوار سو نت لی اور کہا کہ اگر حضور ﷺ کو شہید کر دیا گیا ہے تو کیا بات ہے اللہ تعالیٰ تو زندہ ہیں ، ان پر تو موت طاری نہیں ہو سکتی (اور ہم جو کچھ کر رہے تھے وہ اللہ کی وجہ سے کر رہے تھے)۔ یہ کہہ کر انھوں نے جنگ شروع کر دی یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔ اور یہ یعنی حضرت عثمان بن عبید اللہ کے والد حضرت عبید اللہ ؓ اس وقت بکر یاں چرا رہے تھے۔ تو تم چاہتے ہو کہ میں دونوں کو برابر کر دوں؟ حضرت عمر نے زندگی بھر اسی اصول پر عمل کیا۔ آگے اور مضمون ذکر کیا جس میں سے کچھ مضمون عنقریب آگے آئے گا۔1 حضرت انس بن مالک ؓ اور حضرت ابنِ مسیّب ؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن خطاب ؓ نے مہاجر ین کو پانچ ہزار والوں میں اور انصار کو چار ہزار والوں میں لکھا۔ اور مہاجرین کے جو بیٹے جنگِ بدر میں شریک نہیں ہوسکے ان کو چار ہزار والوں میں لکھا۔ ان میں حضرت عمر بن ابی سلمہ بن عبد الاسد مخزومی، حضرت اُسامہ بن زید، حضرت محمد بن عبد اللہ بن جحش اَسَدی اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بھی تھے۔ اس پرحضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے کہا: حضرت ابنِ عمر اِن میں سے نہیں ہیں اور ان کے یہ یہ فضائل ہیں۔ ( یہ ان سب سے پہلے اسلام لائے ہیں اوریہ ان سے افضل ہیں، لہٰذا ان کو ان سے زیادہ دیا جائے) حضرت ابنِ عمر نے کہا: اگر میرا حق بنتا ہے تو مجھے دیں ورنہ نہ دیں۔ حضرت عمر نے حضرت ابنِ عوف سے کہا: ابنِ عمر کو پانچ ہزار والوں میں لکھ دو اور مجھے چار ہزار والوں میں۔ اس پر حضرت عبد اللہ نے کہا: میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں اور تم دونوں پانچ ہزار والوں میں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔1 حضرت زید بن اسلم ؓ کہتے ہیں: جب حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا تو حضرت عبد اللہ بن حنظلہ ؓ کے لیے دو ہزار وظیفہ مقرر کیا۔ پھر حضرت طلحہ ؓ اپنے بھتیجے کو حضرت عمر کے پاس لائے تو حضرت عمر نے اس کے لیے اس سے کم وظیفہ مقرر کیا۔ حضرت طلحہ نے کہا: اے امیر المؤ منین! آپ نے اس انصار ی کے لیے میرے بھتیجے سے زیادہ وظیفہ مقرر کیا ہے اور یوں اس انصار ی کو میرے بھتیجے پر فضیلت دے دی؟ (حالاںکہ میرا بھتیجا تو مہاجرین میں سے