حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
من) لا کر دیے۔1 حضرت میمونہ بنت الحارث ؓ فرماتی ہیں: ایک سال قحط پڑا تو دیہاتی لوگ مدینہ منوّرہ آنے لگے۔ حضور ﷺ کے فرمانے پر ہر صحابی ان میں سے ایک آدمی کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتا اور اسے اپنا مہمان بنا لیتا اور اسے رات کا کھانا کھلاتا۔ چناںچہ ایک رات ایک دیہاتی آیا (اسے حضور ﷺ اپنے ہاں لے آئے)۔ حضور ﷺ کے پاس تھوڑا سا کھانا اور کچھ دودھ تھا۔ وہ دیہاتی یہ سب کچھ کھاپی گیا اور اس نے حضور ﷺ کے لیے کچھ نہ چھوڑا۔ حضور ﷺ ایک یا دو راتیں اور اس کو ساتھ لاتے رہے اور وہ ہر روز سب کچھ کھا جاتا۔ اس پر میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ! اس دیہاتی میں برکت نہ کر، کیوںکہ یہ حضور ﷺ کا سارا کھانا کھا جاتا ہے اور حضور ﷺ کے لیے کچھ نہیں چھوڑتا۔ پھر وہ مسلمان ہوگیا اور اسے پھر حضور ﷺ ایک رات ساتھ لے کر آئے۔ اس رات اس نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا: یہ وہی آدمی ہے (جو پہلے سارا کھانا کھا لیاکرتا تھا؟) حضور ﷺ نے فرمایا: (ہاں یہ وہی ہے لیکن پہلے کافر تھا اب مسلمان ہوگیا ہے) کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے اور مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے۔2 حضرت اسلم ؓ کہتے ہیں: جب (حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں) سخت قحط پڑا جسے عام الرَّمَادہ کہا جاتا ہے۔ ( رَمادہ کے معنی ہلاکت ہیں یا راکھ۔ یعنی ہلاکت کا سال یا وہ سال جس میں لوگوں کے رنگ قحط کی وجہ سے راکھ جیسے ہوگئے تھے) تو ہر طرف سے عرب کھنچ کر مدینہ منوّرہ آگئے۔ حضرت عمر ؓ نے کچھ لوگوں کو ان کے انتظام، اور ان میں کھانا اور سالن تقسیم کرنے کے لیے مقرر کیا۔ ان لوگوں میں حضرت یزید بن اُختِ نَمِر، حضرت مِسْوَر بن مخرمہ، حضرت عبد الرحمن بن عبدِقاری اور حضرت عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود ؓ تھے۔ شام کویہ حضرات حضرت عمر ؓ کے پاس جمع ہوتے اور دن بھر کی ساری کارگزاری سناتے۔ ان میں سے ہر ایک آدمی مدینہ کے ایک کنارے پر مقرر تھا اور یہ دیہاتی لوگ ثنیّۃ الوداع کے شروع سے لے کر رائج قلعہ، بنو حارثہ، بنو عبد الاشہل، بقیع اور بنوقُریظہ تک ٹھہرے ہوئے تھے۔ ا ور ان میں سے کچھ بنوسَلِمہ کے علاقہ میں بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ بہرحال یہ لوگ مدینہ منوّرہ کے باہر چاروں طرف ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک رات جب یہ دیہاتی لوگ حضرت عمر کے ہاں کھانا کھا چکے تو میں نے حضرت عمر کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارے ہاں جو رات کا کھانا کھاتے ہیں ان کی گنتی کرو۔ چناںچہ اگلی رات گنتی کی تو ان کی تعداد سات ہزار تھی۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا: وہ گھرانے جو یہاں نہیں آتے ہیں ان کی اور بیماروں اور بچوں کی بھی گنتی کرو۔ ان کو گِناتو ان کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ پھر چند راتیں اور گزریں تو لوگ اور زیادہ ہوگئے۔ تو حضرت عمر کے فرمانے پر دوبارہ گِنا تو جن لوگوں نے حضرت عمر کے ہاں رات کا کھانا کھایا تھا وہ دس ہزار تھے اور دوسرے لوگ پچاس ہزار تھے۔ یہ سلسلہ یوںہی چلتا رہا یہاں تک کہ اللہ