حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انھوں نے کہا: ہم نے تو ان سے کہا تھا کہ کھانا کھالو لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب ابو بکر آئیں گے تب کھائیں گے۔ ہم نے بہت زور لگایا لیکن بالکل نہ مانے اور ہم پر غالب آگئے۔ میں یہ سن کر اندر جا کر چھپ گیا (کہ مجھ پر ناراض ہوں گے)۔ حضرت ابو بکر نے مجھے ناراض ہوتے ہوئے کہا: او بے وقوف! (تم نے ان کو کھانا کیوں نہیں کھلایا؟) اور مجھے خوب برا بھلا کہا۔ (پھر حضرت ابو بکر نے غصہ میں قسم کھالی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے) اور حضرت ابو بکر نے مہمانوں سے کہا: تم کھانا کھائو میں یہ کھانا کبھی نہیں کھائوں گا۔ (اس پر مہمانوں نے بھی قسم کھالی کہ اگر ابو بکر نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر حضرت ابو بکر کا غصہ ٹھنڈا ہوا، انھوں نے اپنی قسم توڑی اور مہمانوں کے ساتھ کھانا شروع کر دیا۔ اس پر) حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں: ہم کھانا کھا رہے تھے، اللہ کی قسم! ہم جو لقمہ بھی اٹھاتے اس کے نیچے کھانا اس سے بھی زیادہ بڑھ جاتا، یہاں تک کہ سب مہمان سیر ہوگئے اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ ہوگیا۔ حضرت ابو بکر نے جب دیکھا کہ کھانا پہلے سے بھی زیادہ ہوگیا ہے تو اپنی بیوی سے کہا: اے قبیلہ بنو فِراس والی خاتون! ( دیکھو یہ کیا ہو رہا ہے؟) بیوی نے کہا: کوئی بات نہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! یہ کھاناتو پہلے سے تین گناہوگیا ہے۔ پھر حضرت ابو بکر نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا: میری (نہ کھانے کی) قسم تو شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر انھوں نے اس میں سے ایک لقمہ اور کھایا، پھر وہ اٹھا کر یہ کھانا حضور ﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ ہم مسلمانوں کا ایک قوم سے معاہدہ ہوا تھا جس کی مدت ختم ہوگئی تھی اس وجہ سے ہم مسلمانوں نے ان کی طرف بھیجنے کے لیے ایک لشکر تیار کیا تھا۔ جس میں بارہ آدمیوں کو ذمہ دار بنا کر ہر ایک کے ساتھ بہت سے مسلمان کر دیے تھے۔ ذمہ داروں کی تعداد تومعلوم ہے کہ بارہ تھے لیکن ہر ایک کے ساتھ کتنے مسلمان تھے؟ یہ تعداد اللہ ہی جانتے ہیں۔ بہرحال اس سارے لشکر نے اس کھانے میں سے کھایا تھا۔ بعض راویوں نے بارہ ذمّہ دار بنانے کے بجائے بارہ جماعتیں بنانے کا تذکرہ کیا ہے۔1 حضرت یحییٰ بن عبد العزیز ؓ کہتے ہیں: ایک سال حضرت سعد بن عبادہ ؓ غزوہ میں جاتے اور ایک سال ان کے بیٹے حضرت قیس ؓ جاتے۔ چناںچہ ایک مرتبہ حضرت سعد مسلمانوں کے ہمراہ غزوہ میں گئے ہوئے تھے، ان کے پیچھے مدینہ میں حضور ﷺ کے پاس بہت سے مسلمان مہمان آگئے۔ حضرت سعد کو وہاں لشکر میں یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے کہا: اگر قیس میرا بیٹاہوا تووہ (میرے غلام نِسْطاس سے) کہے گا: اے نِسْطاس! چابیاں لائو تاکہ میں حضورﷺ کے لیے ان کی ضرورت کی چیزیں (اپنے والد کے گودام میں سے) نکال لوں۔ اس پر نِسْطاس کہے گا: اپنے والد کی طرف سے اجازت کی کوئی تحریر لائو۔ تو میرا بیٹا قیس مار کر اس کی ناک توڑ دے گا اور اس سے زبردستی چابیاں لے کر حضور ﷺ کی ضرورت کا سامان نکال لے گا۔ چناںچہ پیچھے مدینہ میں ایسے ہی ہوا اور حضرت قیس نے حضور ﷺ کو سو وسق (تقریبًا پانچ سو پچیس