حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تعالیٰ نے بارش بھیج دی اور قحط دور فرما دیا۔ جب خوب بارش ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ حضرت عمر نے ان انتظامی لوگوں میں سے ہر ایک کی قوم کے ذمّہ یہ کام لگایا کہ ان آنے والے لوگوں میں سے جو اُن کے علاقے میں ٹھہرے ہوئے ہیں ان کو ان کے دیہات کی طرف واپس بھیج دیں، اور انھیں زادِ راہ اور دیہات تک جانے کے لیے سواریاں بھی دیں، اور میں نے دیکھا کہ خود حضرت عمر بھی انھیں بھیجنے میں لگے ہوئے تھے۔ ان قحط زدہ لوگوں میں موتیں بھی بہت ہوئی تھیں۔ میرے خیال میں ان میں سے دو تہائی لوگ مرگئے ہوں گے اور ایک تہائی بچے ہوں گے۔ حضرت عمر کی بہت ساری دیگیں تھیں۔ پکانے والے لوگ صبح تہجد میں اٹھ کر ان دیگوں میں کُرکُور(ایک قسم کا دَلْیا) پکاتے، پھر صبح یہ دلیا بیماروں کو کھلا دیتے۔ پھر آٹے میں گھی ملا کر ایک قسم کا کھانا پکاتے۔ حضرت عمر کے کہنے پر بڑی بڑی دیگوں میں تیل ڈال کر آگ پر اتنا جوش دیا جاتا کہ تیل کی گرمی اور تیزی چلی جاتی۔ پھر روٹی کا ثرید بنا کر اس میں یہ تیل بطور سالن کے ڈال دیا جاتا (چوںکہ عرب تیل استعمال کرنے کے عادی نہیں تھے) اس لیے تیل استعمال کرنے سے ان کو بخار ہوجاتا تھا۔ قحط سالی کے اس تمام عرصے میں حضرت عمر نے نہ اپنے کسی بیٹے کے ہاں کھانا کھایا اور نہ اپنی کسی بیوی کے ہاں، بلکہ ان قحط زدہ لوگوں کے ساتھ ہی رات کا کھانا کھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے (بارش بھیج کر) انسانوں کو زندگی عطا فرمائی۔1 حضرت فِراس دیلمی ؓکہتے ہیں: حضرت عمرو بن عاص ؓ نے مصر سے جو اُونٹ بھیجے تھے ان میں سے حضرت عمر ؓ روزانہ بیس اُونٹ ذبح کرکے اپنے دسترخوان پر (لوگوں کو) کھلاتے تھے۔2 حضرت اسلم ؓکہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ ایک رات گشت کر رہے تھے تو وہ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے گھر کے درمیان میں بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے اِردگرد بچے رو رہے تھے اور ایک دیگچی پانی سے بھر کر آگ پر رکھی ہوئی تھی۔ حضرت عمر نے دروازے کے قریب آکر کہا: اے اللہ کی بندی! یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ اس عورت نے کہا: بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔ حضرت عمر نے کہا: یہ دیگچی آگ پر کیسے رکھی ہوئی ہے؟ اس عورت نے کہا: بچوں کو بہلانے کے لیے پانی بھر کر رکھی ہوئی ہے تاکہ بچے سوجائیں، اور میں نے بچوں کو کہہ رکھا ہے کہ اس میں کچھ ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رونے لگے۔ پھر جس گھر میں صدقے کا مال رکھا ہوا تھا وہاں آئے اور ایک بورا لے کر اس میں کچھ آٹا، چربی، گھی، کھجوریں، کچھ کپڑے اور درہم ڈالے یہاں تک کہ وہ بورا بھر گیا۔ پھر کہا: اے اسلم! یہ بورا اُٹھا کر میرے اوپر رکھ دو۔ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کی جگہ میں اٹھا لیتا ہوں۔ حضرت عمر نے مجھ سے کہا: اے اسلم! تیری ماں مرے! میں ہی اسے اُٹھائوں گا، کیوںکہ آخرت میں ان کے بارے میں مجھ سے ہی پوچھا جائے گا۔