حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جاتے ہیں۔ (انھیں مسجد سے اور مسجد والے اعمال سے دلی لگاؤ کوئی نہیںہے، صرف آپ کو دکھانے کے لیے یہ کرتے ہیں تاکہ آپ خوش ہو کر انھیں آزاد کردیں)۔ تو یہ جواب دیتے کہ ہمیں جو اللہ کے اعمال میں لگ کر دھوکہ دے گاہم اللہ کے لیے اس سے دھوکہ کھاجائیں گے۔ چناںچہ میں نے ایک دن شام کو دیکھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ایک عمدہ اونٹ پر جارہے ہیں جسے انھوں نے بہت زیادہ قیمت دے کر خریدا تھا۔ چلتے چلتے انھیں اس کی چال بڑی پسند آئی۔ وہیں اونٹ کو بٹھایا اور اس سے نیچے اُتر کر فرمایا: اے نافع! اس کی نکیل نکال دو اور اس کا کجاوہ اتار دو اور اس پر جُھول ڈال دو اور اس کے کوہان کے ایک طرف زخم کردو (اس زمانہ میں یہ زخم اس بات کی نشانی تھاکہ یہ جانور اللہ کے نام پر قربان کیا جائے گا )اور پھر اسے قربانی کے جانوروں میں شامل کردو۔1 ابو نُعیم کی ایک اور روایت میں یہ ہے کہ حضرت نافع ؓ کہتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت ابنِ عمر ؓ اپنی اونٹنی پر جا رہے تھے کہ وہ اُونٹنی انھیں اچھی لگنے لگی، تو فوراً اسے (بٹھانے کے لیے) فرمایا: اِخْ اِخْ۔ (اس زمانہ میں اس آواز سے عرب اُونٹ کو بٹھایا کرتے تھے) اور اسے بٹھا کر فرمایا: اے نافع! اس سے کجاوہ اُتار لو۔ میں یہ سمجھا کہ وہ مجھے کجاوہ اتارنے کو جو فرما رہے ہیں یا تو اپنی کوئی ضرورت اس کجاوہ سے پوری کرنا چاہتے ہیں یا آپ کو اس اونٹنی کے بارے میں کوئی شک گزرا ہے (کہ کہیں اس کو کوئی تکلیف تو نہیں ہو رہی ہے)۔ چناںچہ میں نے اس سے کجاوہ اتار دیا تو مجھ سے فرمایا: دیکھو، اس پر جو سامان ہے کیا ا س سے دوسری اونٹنی خریدی جاسکتی ہے؟ (یعنی اسے تو اللہ کے نام پر قربان کر دیا جائے کیوںکہ یہ پسند آگئی ہے اور پسندیدہ مال اللہ کے نام پر قربان کر دینا چاہیے اور اس کے سامان کو بیچ کر اس سے سفر کے لیے دوسری اونٹنی خرید لی جائے) میں نے کہا: میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر آپ چاہیں تو اسے بیچ کر اس کی قیمت سے دوسری اُونٹنی خرید سکتے ہیں۔ چناںچہ انھوں نے اپنی اس اونٹنی کو جھول پہنائی اور اس کی گردن میں جوتے کا ہار ڈالا ( یہ ہار بھی اس بات کی نشانی تھی کہ اس جانور کو حرم شریف میں لے جاکر قربان کیا جائے گا) اور اسے اپنے قربانی کے اونٹوں میں شامل کر دیا، اور ان کو جب بھی اپنی کوئی چیز اچھی لگنے لگتی تو اسے فوراً آگے بھیج دیتے۔ (یعنی اللہ کے نام پر خر چ کردیتے تا کہ کل قیامت کو کام آئے) ابونُعیم کی اور ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت نافع ؓ کہتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا مستقل معمول یہ تھاکہ جب بھی انھیں اپنے مال میں سے کوئی چیز پسند آجاتی تو فوراً اسے اللہ کے نام پر خرچ کر دیتے اور اس کی ملکیت سے دستبردار ہوجاتے۔ اور بعض مرتبہ ایک ہی مجلس میں تیس ہزار اللہ کے لیے دے دیتے۔ اور دو مرتبہ ان کو ابنِ عامر نے تیس ہزار دیے تو انھوں نے (مجھ سے) فرمایا: اے نافع! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ابنِ عامر کے درہم مجھے فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں،