حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں سے خود کھالے اور اپنے دوست کو کھلا دے، لیکن اسے اپنے لیے اس میں سے مال جمع کرنے کی اجازت نہیںہے۔2 حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو خط لکھا کہ وہ ان کے لیے جَلُولاء (خراسان کے راستہ میں ایک شہر ہے، ۱۶ ہجری میں مسلمانوں نے اسے فتح کیا تھا) کے قیدیوں میں سے ایک باندی خرید لیں۔ (چناںچہ انھوں نے ایک باندی خرید کر حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دی، وہ حضرت عمرکو بہت اچھی لگی) حضرت عمرنے اس باندی کو بلایااور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ}3 تم خیرِ کامل کو کبھی حاصل نہ کرسکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز کو خرچ نہ کرو گے۔ اور اس باندی کو آزاد کردیا۔1 حضرت نافع ؓ کہتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی ایک باندی تھی۔ جب وہ (اپنے اخلاق وعادات اور حسن وجمال کی وجہ سے) انھیں زیادہ پسند آنے لگی تو اسے آزاد کرکے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سے اس کی شادی کر دی۔ پھر اس کا لڑکا پید اہوا تو حضرت نافع کہتے ہیں: میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر کو دیکھا کہ وہ اس بچے کو اٹھا کر اس کا بوسہ لیتے اور کہتے: واہ واہ! فلانی کی کتنی اچھی خوش بو اس میں سے آرہی ہے! ان کی مراد وہی آزاد کردہ باندی تھی۔2 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: مجھے ایک مرتبہ { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} والی آیت یاد آئی (آیت کا ترجمہ دو حدیث پہلے گزر چکا ہے) تو میں نے ان تمام چیزوں میں غور کیا جو اللہ نے مجھے دے رکھی تھیں (کہ ان میں سے کون سی چیز مجھے سب سے زیادہ پیاری لگتی ہے) تو مجھے اپنی رومی باندی مَرْجانہ سے کوئی چیز زیادہ پیاری نظر نہ آئی، اس لیے میں نے کہا: یہ مَرْجانہ اللہ کے لیے آزاد ہے۔ (آزاد کرنے کے بعد بھی دل میں اس سے تعلق باقی رہا جس کی وجہ سے میں یہ کہتا ہوں)کہ اللہ کو دینے کے بعد چیز کو واپس لینا لازم نہ آتا تو میں اس سے ضرور شادی کرلیتا۔3 حاکم کی روایت میں اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ پھر میں نے اس کی شادی نافع سے کردی، چناںچہ اب وہ نافع کی اولاد کی ماں ہے۔4 ابو نُعیم نے’’ حِلیہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضرت نافع ؓ کہتے ہیں: حضرت ابنِ عمر ؓ کی یہ عادت تھی کہ جب انھیں اپنے مال میں سے کوئی چیز زیادہ پسند آنے لگتی تو اسے فوراً اللہ کے نام پر خرچ کر دیتے اور یوں اللہ کا قرب حاصل کرلیتے، اور ان کے غلام بھی ان کی اس عادتِ شریفہ سے واقف ہوگئے تھے۔ چناںچہ بعض دفعہ ان کے بعض غلام نیک اَعمال میں خوب زور دکھاتے اور ہر وقت مسجد میں اَعمال میں لگے رہتے۔ جب حضرت ابنِ عمراُن کو اس اچھی حالت پر دیکھتے تو ان کو آزاد کر دیتے۔ اس پر ان کے ساتھی ان سے کہتے: اے ابو عبد الرحمن! اللہ کی قسم! یہ لوگ تو اس طرح آپ کو دھوکہ دے