حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گئے اور حضور ﷺ سے عرض کیا کہ وہ قرض خواہوں سے کہیں کہ وہ میرا قرض معاف کر دیں۔ (چناںچہ حضور ﷺ نے ان کی سفارش فرمائی) لیکن قرض خواہوں نے انکار کردیا۔ اگر یہ قرض خواہ کسی کے کہنے کی وجہ سے کسی کا قرضہ معاف کرنے والے ہوتے تو حضور ﷺ کی وجہ سے ضرور معاف کر دیتے۔ آخر حضور ﷺ نے ان کا قرض اد اکرنے کے لیے ان کا سارا مال بیچ دیا، یہاں تک کہ حضرت معاذ وہاں سے خالی ہاتھ اُٹھے ان کے پاس کوئی چیز نہ بچی۔ جب فتحِ مکہ کا سال آیا تو حضور ﷺ نے ان کو یمن کے ایک حصہ کا گورنر بناکر بھیج دیا تاکہ ان کے نقصان کی تلافی ہوسکے۔ حضرت معاذ یمن میں گورنر بن کر ٹھہرے رہے۔ اور وہ سب سے پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اللہ کے مال سے یعنی زکوٰۃ کے مال سے تجارت کی۔ چناںچہ یہ یمن میں ٹھہر کر تجارت کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے پاس مال جمع ہوگیا اور اتنے عرصہ میں حضور ﷺ کا بھی انتقال ہوگیا۔ جب یہ (مدینہ) واپس آئے تو حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اس آدمی یعنی حضرت معاذ کے پاس قاصد بھیجیں اور جتنے مال سے ان کا گزر اوقات ہوسکے اتنا مال ان کے پاس رہنے دیں باقی سارا مال ان سے لے لیں۔ حضرت ابو بکر نے کہا: حضور ﷺ نے ان کو (یمن) بھیجا ہی اس لیے تھا تاکہ ان کے نقصان کی تلافی ہوجائے، لہٰذا میں تو ان سے از خود کچھ نہیں لوں گا۔ ہاں اگر یہ خود کچھ دیں تو لے لوں گا۔ جب حضرت ابو بکر نے حضرت عمرکی بات نہ مانی تو حضرت عمر حضرت معاذ کے پاس خود چلے گئے، ان سے اپنی اس بات کا تذکرہ کیا۔ حضرت معاذ نے کہا: حضور ﷺ نے مجھے تو اپنے نقصان کی تلافی کے لیے ہی بھیجا تھا، لہٰذا میں تو آپ کی با ت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ (زکوٰۃ کا مال لے کر انھوں نے تجارت کی تھی اس سے جو نفع ہوا وہ انھوں نے رکھ لیا اور اصل زکوٰۃ کا مال واپس کر دیا اس لیے یہ نفع ان کا ہی تھا، لیکن حضرت عمرکا مطلب یہ تھا کہ چوںکہ اجتماعی مال اس نفع کا ذریعہ بنا ہے اس لیے سارا نفع نہ رکھیں، بلکہ بقدرِ ضرورت رکھ کر باقی نفع بیت المال میں جمع کرادیں، یہ فضیلت کی بات تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد) حضرت معاذ کی حضرت عمر سے ملاقات ہوئی تو ان سے حضرت معاذ نے کہا: میں نے آپ کی بات مان لی جیسے آپ کہہ رہے ہیں میں ویسے کرلیتا ہوں۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بہت زیادہ پانی میں ہوں اور ڈوبنے سے ڈر رہا ہوں۔ اور اے عمر! پھر آپ نے مجھے ڈوبنے سے بچایا۔ پھر حضرت معاذحضرت ابو بکر کے پاس آئے اور ان کو سارا قصّہ سنایا (اور اپنا سارا مال لا کر ان کو دے دیا) اور قسم کھا کر ان سے کہاکہ انھوں نے ان سے کچھ نہیں چھپایا۔ چناںچہ اپنا کوڑا بھی سامنے لاکر رکھ دیا۔ حضرت ابو بکر نے کہا: اللہ کی قسم! میں تم سے یہ مال نہیں لوں گا، میں نے تم کو یہ ہدیہ کر دیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: اب حضرت معاذ کا یہ مال لینا ٹھیک ہے، کیوںکہ انھوں نے تو یہ سارا مال بیت المال کو دے دیا جس سے یہ مال ان کے لیے حلال اور پاکیزہ ہوگیا، اس کے بعد حضرت ابوبکر نے ان کو ہدیہ کیا ہے۔ اس کے بعد حضرت معاذ ؓ ملکِ