حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس نے اپنے سارے جانور جمع کر دیے تو میں نے دیکھا کہ ان جانوروں میں اس پر صرف ایک سالہ اونٹنی واجب ہوتی ہے۔ میں نے کہا: تم ایک سالہ اونٹنی دے دو کیوںکہ زکوٰۃ تم پر اتنی ہی بنتی ہے۔ اس آدمی نے کہا: یہ کم عمر اونٹنی نہ تو دودھ دے سکتی ہے اور نہ سواری کے کام آسکتی ہے، البتہ یہ اونٹنی جو ان اور خوب موٹی تازی ہے تم اسے لے لو۔ میں نے کہا: جس جانور کے لینے کا مجھے حکم نہیں ملا میں اسے نہیں لے سکتا۔ البتہ حضور ﷺ تمہارے قریب ہی ہیں، اگر تم مناسب سمجھو تو تم مجھے جو دینا چاہتے ہو وہ خود جاکر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کردو۔ اگر وہ قبول فرما لیں گے تو میں بھی قبو ل کرلوں گا، اگر انھوں نے قبول نہ فرمایاتو پھر میں نہیں لے سکتا۔ اس نے کہا: چلو ایسے کرلیتا ہوں۔ چناںچہ وہ میرے ساتھ چل پڑا اور اپنے ساتھ وہ اُونٹنی بھی لے لی جو مجھے پیش کی تھی۔ پھر ہم لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کا قاصد مجھ سے میرے جانوروں کی زکوٰۃ لینے آیا تھا اوراللہ کی قسم! اس سے پہلے نہ تو حضور ﷺ (میرے جانوروں کی زکوٰۃ لینے) آئے اور نہ حضور ﷺ کا قاصد۔ چناںچہ آپ کے قاصد کے سامنے میں نے اپنے سارے جانور جمع کر دیے۔ آپ کے قاصد نے بتایا کہ مجھ پر زکوٰۃ میں صرف ایک سالہ اُونٹنی واجب ہے جو کہ نہ دودھ دیتی ہے اور نہ سواری کے کام آسکتی ہے، اس لیے میں نے آپ کے قاصد کے سامنے ایک جوان موٹی تازی اونٹنی پیش کی کہ اسے لے لے، لیکن انھوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ یا رسول اللہ! وہ اونٹنی یہ ہے، میں اسے لے کر آپ کی خدمت میں آیا ہوں۔ توحضور ﷺ نے اس سے فرمایا: واجب تو تم پر وہی ایک سالہ اونٹنی ہے، تم اپنی مرضی سے اس سے بہتر جانور دینا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی بہتر جزا عطا فرمائے! ہم اسے قبول کرتے ہیں۔ اس نے (خوشی میں) دوبارہ کہا: یارسول اللہ! وہ اونٹنی یہ ہے، میں آپ کے پاس اسے لایا ہوںآپ اسے لے لیں۔ چناںچہ حضور ﷺ نے اسے لینے کا حکم فرما دیا اور اس کے لیے اس کے جانوروں میں برکت کی دعا فرمائی۔1 حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ اور حضرت اسماء ؓ سے زیادہ سخی کوئی عورت نہیں دیکھی۔ البتہ ان دونوں کی سخاوت کا طریقہ الگ الگ تھا۔ حضرت عائشہ تھوڑی تھوڑی چیز جمع کرتی رہتیں، جب کافی چیزیں جمع ہوجاتیں تو پھر ان کو تقسیم فرما دیتیں۔ اور حضرت اَسماء تو اگلے دن کے لیے کوئی چیز نہ رکھتیںیعنی جو کچھ تھوڑا بہت آتا اسی دن تقسیم کر دیتیں۔1 حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک ؓ کہتے ہیں: حضرت معاذ بن جبل ؓ بہت سخی، نوجوان اور بہت خوب صورت تھے، اور اپنی قوم کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ فضیلت والے تھے۔ وہ کوئی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے۔ چناںچہ وہ قرض لیتے رہے (اور دوسروں پر خرچ کرتے رہے) یہاں تک کہ سارا مال قرضہ میں گھر گیا۔ اس پر وہ حضور ﷺ کی خدمت میں