حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کچھ مال بچ گیا۔ آپ نے اس کے بارے میں لوگوں سے مشورہ لیا۔ لوگوں نے کہا: اگر آپ اسے آیندہ پیش آنے والی ضرورت کے لیے رکھ لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ حضرت علی ؓ بالکل خاموش تھے انھوں نے کچھ نہ کہا۔ حضرت عمر نے کہا: اے ابو الحسن! کیا ہوا، آپ اس بارے میں کچھ نہیںکہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: لوگوں نے اپنی رائے بتا تو دی ہے۔ حضرت عمر نے کہا: نہیں، آپ کو بھی اپنا مشورہ ضرور دینا ہوگا۔ حضرت علی نے کہا: اللہ تعالیٰ (قرآن مجید میں خرچ کرنے کی جگہیں بتا کر) اس مال کی تقسیم (بتانے) سے فارغ ہوچکے ہیں (آپ کو یہ بچا ہوا مال بھی وہاں ہی خرچ کرنا چاہیے)۔ پھر حضرت علی نے یہ قصہ بیان کیا کہ حضورِ اَقدس ﷺ کے پاس بحرین سے مال آیا تھا، (حضور ﷺ نے اسے تقسیم کرنا شروع کیا، لیکن) ابھی آپ اس کی تقسیم سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ رات آگئی (تو آپ نے وہ رات مسجد میں گزاری اور) ساری نمازیں مسجد میں پڑھائیں (یعنی سارا دن مسجد میں بیٹھ کر تقسیم کرتے رہے گھر نہ گئے)۔ میں نے دیکھا کہ جب تک آپ نے یہ سارا مال تقسیم نہیں کرلیا آپ کے چہرے پر پریشانی اور فکر کے آثار رہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اب تو یہ بقیہ مال آپ کو ہی تقسیم کرنا ہوگا۔ چناںچہ حضرت علی نے اسے تقسیم کیا۔ حضرت طلحہ فرماتے ہیں: مجھے اس میں سے آٹھ سو درہم ملے۔2 حضرت اُمّ سَلَمہ ؓ فرماتی ہیں: ایک مرتبہ حضورِ اَقدس ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو آپ کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ کسی درد کی وجہ سے نہ ہو۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کو کیا ہوا؟ آپ کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: ان سات دینار کی وجہ سے جو کل ہمارے پاس آئے ہیں، اور آج شام ہوگئی ہے اور وہ ابھی تک بستر کے کنارے پر پڑے ہوئے ہیں۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ وہ سات دینار ہمارے پاس آئے اور ہم ابھی تک ان کو خرچ نہیں کرسکے۔1 حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں: حضورِ اَقدس ﷺ کے پاس سات دینار تھے جو آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے پاس رکھوائے تھے۔ جب آ پ زیادہ بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا: اے عائشہ ! یہ سونا علی کے پاس بھجوادو۔ اس کے بعد آپ بے ہوش ہوگئے تو حضرت عائشہ ؓ آپ کے سنبھالنے میں ایسی مشغول ہوئیں کہ وہ دینار بھجوا نہ سکیں۔ یہ بات حضور ﷺ نے کئی مرتبہ ارشاد فرمائی، لیکن ہر مرتبہ آپ فرمانے کے بعد بے ہوش ہوجاتے اور حضرت عائشہ ؓ آپ کے سنبھالنے میں مشغو ل ہوجاتیں اور وہ دینار نہ بھجوا پاتیں۔ آخر حضور ﷺ نے وہ دینار خود حضرت علی کو بھجوائے اور انھوں نے انھیں صدقہ کردیا۔ پیر کی رات کو شا م کے وقت حضور ﷺ پر نزع کی کیفیت طاری ہونے لگی تو حضرت عائشہ نے اپنا چراغ اپنے پڑوس کی ایک عورت کے پاس بھیجا (جو کہ حضور ﷺ کی زوجۂ محترمہ تھیں ) اور ان سے کہا: ہمارے اس چراغ