حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں اپنے گھی کے ڈبے میں سے کچھ گھی ڈال دو، کیوںکہ حضور ﷺ پر نزع کی کیفیت طاری ہوچکی ہے۔2 حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: حضور ﷺ نے اپنے مرض الوفات میں مجھے حکم دیا کہ جو سونا ہمارے پاس ہے میں اسے صدقہ کر دوں۔ (لیکن میں حضور ﷺ کی خدمت میں مشغول رہی اور صدقہ نہ کرسکی) پھر آپ کو افاقہ ہوا۔ آپ نے فرمایا: تم نے اس سونے کا کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے دیکھا کہ آپ بہت زیادہ بیمار ہوگئے ہیں اس لیے میں آپ کی خدمت میں ایسے لگی کہ بھول گئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: وہ سونا لے آؤ۔ چناںچہ حضرت عائشہ حضور ﷺ کی خدمت میں سات یا نو دینار لائیں۔ ابو حازم راوی کو شک ہوا کہ دینار کتنے تھے؟ جب حضرت عائشہ لے آئیں تو حضور ﷺ نے فرمایا: اگر محمد ( ؑ) کی اللہ سے ملاقات اس حال میں ہوتی (یعنی اگر ان کا انتقال اس حال میں ہوتا) کہ یہ دینار ان کے پاس ہوتے تو محمد ( ؑ) کیا گمان کرسکتے؟ (یعنی ان کو بہت ندامت ہوتی) اگر محمد ( ؑ) کی اللہ سے ملاقات اس حال میں ہوتی کہ یہ دینار ان کے پاس ہوتے تو یہ دینار محمد ( ؑ) کے بھروسے کو اللہ پر نہ رہنے دیتے۔1 حضرت عبید اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں: مجھ سے حضرت ابو ذر ؓ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! میں حضورِ اَقدس ﷺ کے ساتھ آپ کا دستِ مبارک پکڑے ہوئے تھا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: اے ابو ذر! مجھے یہ بات پسند نہیںکہ مجھے اُحد پہاڑ کے برابر سونا اور چاندی مل جائے، اور میں اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دوں اور مرتے وقت میرے پاس اس میں سے ایک قیراط (دینار کا بیسواں حصہ) ہی بچا ہوا ہو۔ (یعنی میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرے پاس دینار اور درہم میں سے کچھ بھی نہ ہو) میںنے کہا: (آپ قیراط فرما رہے ہیں) یاقنطار؟ (یعنی چار ہزار دینار) آپ نے فرمایا: میں کم مقدار کہنا چاہتا ہوںاور تم زیادہ کہہ رہے ہو۔ میں آخرت چاہتا ہوں اور تم دنیا۔ ایک قیراط۔(یعنی قِنطار نہیںبلکہ قیراط) یہ بات آپ نے مجھ سے تین بار فرمائی۔2 حضرت ابو ذر ؓ حضرت عثمان بن عفان ؓ کے پاس آئے (اور انھوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی) حضرت عثمان نے ان کو اجازت دی (وہ اندر آگئے)۔ ان کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ حضرت عثمان نے کہا: اے کعب! حضرت عبد الرحمن (بن عوف ؓ) کا انتقال ہوا ہے اور وہ بہت سا مال چھوڑ کر گئے ہیں، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ حضرت کعب نے کہا: اگر وہ اس مال کے بارے میں اللہ کا حق یعنی زکوٰۃ اد اکرتے رہے ہیں تو ان کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ یہ سن کر حضرت ابو ذر نے اپنی لاٹھی اٹھا کر حضرت کعب کو ماری اور کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ اس پہاڑ کے برابر مجھے سونا مل جائے اور میں اسے خرچ کر دوں اور وہ خرچ کرنا اللہ کے ہاں قبول بھی ہوجائے اور میں اپنے پیچھے چھ اُوقیہ یعنی دو سو چالیس درہم چھوڑ جاؤں۔ پھر انھوںنے حضرت عثمان کو مخاطب کرکے تین مرتبہ فرمایا: میں