حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر میں نے وہاں کے نیک لوگوں کو جمع کیا اور مسلمانوں سے مالِ غنیمت جمع کرنے کا ان کو ذمّہ داربنا دیا۔ جب وہ جمع کر کے لے آئے تو میں نے وہ سارا مال صحیح مصرف پر خرچ کر دیا۔ اگر اس میں شرعاً آپ کا حصّہ بھی ہوتا تو میں وہ آپ کے پاس ضرور لے کر آتا۔ حضرت عمر نے کہا: تو کیا تم ہمارے پاس کچھ نہیں لائے؟ حضرت عمیر نے کہا: نہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: (یہ تو بہت اچھے گورنر ہیں کچھ لے کر نہیں آئے ہیں) عمیر کے لیے (گورنریٔ حمص کا) عہد نامہ پھر لکھ دو۔ حضرت عمیر نے کہا: اب میں نہ آپ کی طرف سے گورنر بننے کے لیے تیار ہوں اور نہ آپ کے بعد کسی اور کی طرف سے، کیوںکہ اللہ کی قسم! میں (اس گورنری میں خرابی) سے بچ نہ سکا۔ میں نے ایک نصرانی سے (اَمارت کے زعم میں) کہا تھا: اے فلانے! اللہ تجھے رسوا کرے۔ (اور ذمی کو تکلیف پہنچانا برا کام ہے) اے عمر! آپ نے مجھے گورنر بناکر ایسی خرابیوں میں مبتلا ہونے کے خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ اے عمر! میری زندگی کے سب سے برے دن وہ ہیں جن میں میں آپ کے ساتھ پیچھے رہ گیا (اور دنیا سے چلا نہیں گیا)۔ پھر انھوں نے حضرت عمر سے اجازت مانگی، حضرت عمر نے ان کو اجازت دے دی۔ وہ اپنے گھر واپس آگئے۔ ان کا گھر مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر تھا۔ جب حضرت عمیر چلے گئے تو حضرت عمر نے فرمایا: میرا تو یہی خیال ہے کہ عمیر نے ہم سے خیانت کی ہے۔ (یہ حمص سے ضرور مال لے کر آئے ہیں جسے اپنے ساتھ میرے پاس نہیں لائے بلکہ سیدھے اپنے گھر بھیج دیا ہے) حارث نامی ایک آدمی کو سو دینار دے کر حضرت عمر نے کہا: یہ دینار لے جاؤ، جاکر عمیر کے ہاں اجنبی مہمان بن کر ٹھہرو۔ اگر اُن کے گھر میں فراوانی دیکھو تو ایسے ہی میرے پاس واپس آجاؤ، اور اگر تنگی کی سخت حالت دیکھو تو انھیں یہ سودینار دے دینا۔ حضرت حارث گئے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ حضرت عمیردیوار کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھے اپنی قمیض سے جُوئیں نکال رہے ہیں۔ انھوں نے جا کر حضرت عمیر کو سلام کیا، حضرت عمیر نے (سلام کا جواب دیا اور) کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! آجاؤ ہمارے مہمان بن جاؤ۔ چناںچہ وہ سواری سے اُتر کر ان کے ہاں ٹھہر گئے۔ پھر حضرت عمیر نے ان سے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہو؟ انھوں نے کہا: مدینہ سے۔ حضرت عمیر نے پوچھا: آپ نے امیر المؤمنین کو کس حال میں چھوڑا؟ انھوں نے کہا: اچھے حال میں تھے۔ حضرت عمیر نے پوچھا: مسلمانوں کو کس حال میں چھوڑا؟ انھوں نے کہا: وہ بھی ٹھیک تھے۔ حضرت عمیر نے پوچھا: کیا امیرالمؤمنین شرعی حدود قائم نہیں کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا: کرتے ہیں، ان کے بیٹے سے ایک گناہِ کبیرہ ہوگیا تھا حضرت عمر نے اس پر حدِ شرعی قائم کی تھی اور اسے کوڑے لگائے تھے جس سے اس کا انتقال ہوگیا تھا۔ (لیکن صحیح روایت یہ ہے کہ اس واقعہ کے ایک ماہ بعد طبعی موت سے ان کا انتقال ہوا) حضرت عمیر نے کہا: اے