حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عَنْتَرہ ؓ کہتے ہیں: حضرت عمیربن سعد اَنصاری ؓکو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حمص کا گورنر بنا کر بھیجا۔ یہ وہاں ایک سال رہے لیکن اس عرصہ میں ان کی کوئی خبر نہ آئی۔ حضرت عمر نے اپنے کاتب سے فرمایا: عمیر کو خط لکھو۔ اللہ کی قسم! میرا تو یہی خیال ہے کہ عمیر نے ہم سے خیانت کی ہے ۔ (خط کا مضمون یہ تھا:) جو ں ہی میر ایہ خط تمہیں ملے میرے پاس آجاؤ۔ اور میرا خط پڑھتے ہی تم وہ سارا مال ساتھ لے کر آؤ جو تم نے مسلمانوں کے مالِ غنیمت میں سے جمع کر رکھا ہے۔ (خط پڑھتے ہی حضرت عمیر ؓ چل پڑے اور) حضرت عمیر نے اپنا چمڑے کا تھیلا لیا اور اس میں اپنا توشہ اور پیالہ رکھا اور اپنا چمڑے کا لوٹا (غالباً تھیلے سے باندھ کر) لٹکا لیا اور اپنی لاٹھی لی اور حمص سے پیدل چل کر مدینہ منوّرہ پہنچے۔ جب وہاں پہنچے تو رنگ بدلا ہوا تھا، چہرہ غبار آلود تھا اور بال لمبے ہوچکے تھے۔ چناںچہ حضرت عمر کی خدمت میں گئے اور کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ حضرت عمر نے کہا: آپ کا کیا حال ہے ؟ حضرت عمیر نے کہا: آپ میرا کیا حال دیکھ رہے ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ میں صحت مند، پاک خون والا ہوں۔ اور میرے ساتھ دنیا ہے جس کی باگ پکڑ کر میں اسے کھینچ کر لایا ہوں۔ حضرت عمر سمجھے کہ یہ بہت سا مال لائے ہوںگے، اس لیے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا ہے؟ حضرت عمیر نے کہا: میرے ساتھ میرا تھیلا ہے جس میں اپنا توشہ اور پیالہ رکھتا ہوں۔ پیالہ میں کھا بھی لیتا ہوں اور اسی میں اپنا سر اور اپنے کپڑے دھو لیتا ہوں۔ اور ایک لوٹا ہے جس میں وضو اور پینے کا پانی رکھتا ہوں۔ اور میری ایک لاٹھی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اگر کوئی دشمن سامنے آجائے تو اسی سے اس کا مقابلہ کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم! دنیا میرے اس سامان کے پیچھے ہے (یعنی میری ساری ضروریات اسی سامان سے پوری ہوجاتی ہیں)۔ پھر حضرت عمر نے پوچھا: تم وہاں سے پیدل چل کرآئے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ حضرت عمر نے پوچھا: کیا تمہارا وہاں (تعلق والا) کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جو تمہیں سواری کے لیے کوئی جانور دے دیتا؟ انھوں نے کہا: وہاں والوں نے مجھے سواری دی نہیں اور میں نے ان سے مانگی نہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: وہ برے مسلمان ہیں جن کے پا س سے تم آئے ہو (کہ انھوں نے اپنے گورنر کا ذرا خیال نہیں کیا)۔ حضرت عمیر نے کہا: اے عمر! آپ اللہ سے ڈریں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیبت سے منع کیا ہے اور میں نے ان کو دیکھا ہے کہ وہ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے (اور جو صبح کی نماز پڑھ لے وہ اللہ کی ذمّہ داری میں آجاتا ہے)۔ حضرت عمر نے کہا: میں نے تمہیںکہاں بھیجا تھا؟ اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے: میں نے تم کو جس چیز کی وصولی کے لیے بھیجا تھا، وہ کہاں ہے؟ اور وہاں تم نے کیا کیا؟ انھوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کیا پوچھ رہے ہیں؟ (میںسمجھ نہیںسکا) حضرت عمر نے (تعجب سے) کہا: سبحان اللہ! (سوال تو بالکل واضح ہے) حضرت عمیر نے کہا: اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ نہ بتانے سے آپ غمگین ہوجائیں گے تو میں آپ کو نہ بتاتا۔ آپ نے مجھے وہاں بھیجا۔ وہاں پہنچ