حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(اس کا وبال ان پر ہی ہوگا۔ اور ان کو خلیفہ بنانے سے) میرا ارادہ خیر کا ہی ہے اور مجھے غیب کا علم نہیں۔ ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ ان کے ظلم کا انجام کیا ہوگا؟ اور وہ کس برے ٹھکانہ کی طرف لوٹنے والے ہیں؟ پھر انھوں نے آدمی بھیج کر حضرت عمر ؓ کو بلایا اور ان کو زبانی یہ وصیت فرمائی: اے عمر! کچھ لوگ تم سے بغض رکھتے ہیں اور کچھ تم سے محبت کرتے ہیں۔ پرانے زمانے سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ خیر کو براسمجھا جاتا ہے اور شر کو پسند کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: پھر تو مجھے خلافت کی ضرورت نہیں۔ حضرت ابو بکرنے فرمایا: لیکن خلافت کو تمہاری ضرورت ہے، کیوںکہ تم نے حضور ﷺ کو دیکھا ہے اور ان کے ساتھ رہے ہو۔ اور تم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ حضور ﷺ ہمیں اپنی ذات پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ حضور ﷺ کی طرف سے ہمیں جو ملتا تھا ہم اسے استعمال کرتے اور پھر اس میں سے جو بچ جاتا وہ ہم حضور ﷺ کے گھر والوں کو بھیج دیا کرتے۔ (یعنی حضور ﷺ اپنے گھر والوں کو پہلے نہ دیتے، بلکہ ان پر ترجیح دیتے ہوئے پہلے ہمیں دیتے) اور پھر تم نے مجھے بھی دیکھا ہے اور میرے ساتھ بھی رہے ہو۔ اور میں نے اپنے سے پہلے والے کی یعنی حضور ﷺ کی اتباع کی ہے۔ اللہ کی قسم! یہ بات نہیں ہے کہ میں سو رہا ہوں اور خواب میں تم سے باتیں کر رہا ہوں، یا کسی وہم کے طور پر تمہارے سامنے یہ شہادتیں دے رہا ہوں۔ اور میں نے (سوچ سمجھ کر) جو راستہ اختیار کیا ہے اس سے اِدھر اُدھر نہیںہٹا ہوں۔ اے عمر! اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ رات میں اللہ تعالیٰ کے کچھ حقوق ایسے ہیں جنھیں وہ دن میں قبول نہیں کرتے ہیں، اور دن میں کچھ حقوق اللہ کے ایسے ہیں جن کو وہ رات میں قبول نہیں کرتے ہیں۔ (یعنی انسان دن میں انسانوں پر محنت کرے اور مسلمانوں کے اجتماعی کام میں لگا رہے اور رات کو کچھ وقت اللہ کی عبادت، ذکروتلاوت اور دعا میں مشغول رہے۔ دن ورات کی یہ ترتیب اللہ نے مقرر فرمائی ہے) اور قیامت کے دن صرف حق کے اتباع کرنے کی وجہ سے ہی اَعمال کا ترازو بھاری ہوگا، اور جس ترازو میں صرف حق ہی ہو اس کا بھاری ہونا ضروری ہے۔ اور قیامت کے دن صرف باطل کے اتباع کرنے کی وجہ سے ہی ترازو ہلکا ہوگا، اور جس ترازو میں صرف باطل ہی ہو اس کا ہلکا ہونا ضروری ہے۔ سب سے پہلے میں تمہیں تمہارے اپنے نفس سے ڈراتا ہوں، پھر لوگوں سے ڈراتا ہوں۔ کیوںکہ لوگوں کی نگاہیں (لالچ کی وجہ سے) جھانکنے لگ گئی ہیں اور ان کی نفسانی خواہشات پھول گئی ہیں، یعنی زور پکڑ چکی ہیں، لیکن جب ان خرابیوں کی وجہ سے انھیں ذِلّت اٹھانی پڑے گی تو اس وقت وہ حیران وپریشان ہوں گے۔ کیوںکہ جب تک تم اللہ سے ڈرتے رہو گے اس وقت تک وہ لوگ تم سے ڈرتے رہیں گے۔ یہ میری وصیت ہے میری طرف سے تمہیں سلام ہو۔1 حضرت عبد الرحمن بن سابِط، حضرت زید بن زُبید بن حارث اور حضرت مجاہد ؓ کہتے ہیں: جب حضرت ابو بکر ؓ کی وفات کا