حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہا نہ لیا)۔ اورحضرت بکیرکے ساتھ یہ سب کچھ حضور ﷺ کی دعا کی برکت سے ہوا (کہ بغیرگواہ کے ان کی بات سچی مان لی گئی)۔1 حضرت قاسم بن ابی بزّہ کہتے ہیں: شام میں ایک مسلمان نے ایک ذمّی کافر کو قتل کردیا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جرّ اح ؓ کے سامنے یہ مقدمہ پیش کیا گیا تو انھوں نے یہ قصہ لکھ کر حضرت عمر ؓ کو بھیجا۔ حضرت عمر نے جواب میں یہ لکھا کہ یوںذمّیوں کو قتل کرنا اگر اس مسلمان کی مستقل عادت بن گئی ہے پھر تو اسے آگے کر کے اس کی گردن اُڑا دو۔ اور اگر وہ طیش میں آکر اچانک ایسا کربیٹھا ہے تو اس پر چار ہزار کی دیت کا جرمانہ لگادو۔2 کوفہ کے ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے ایک لشکر بھیجا تھا۔ اس کے امیر کو یہ خط لکھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ تمہارے کچھ ساتھی کبھی موٹے تازے کافر کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں، وہ کافر دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے اور خود کو محفوظ کرلیتا ہے تو پھر اس سے تمہارا ساتھی (فارسی میں) کہتا ہے: مَتَرس یعنی مت ڈرو۔ (یہ کہہ کر اسے امان دے دیتا ہے وہ کافر خود کو اس مسلمان کے حوالہ کر دیتا ہے) پھر یہ مسلمان اس کافر کو پکڑ کر قتل کر دیتا ہے۔ (یہ قتل دھوکہ دے کر کیا ہے) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! آیندہ اگر مجھے کسی کے بارے میں پتہ چلا کہ اس نے ایسا کیا ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا۔1 حضرت ابوسَلَمہ ؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کسی نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کسی مشرک کو امان دے دی اور وہ مشرک اس وجہ سے اس مسلمان کے پاس آگیا اور پھر مسلمان نے اسے قتل کر دیا تو (یوں دھوکہ سے قتل کرنے پر) میں اس مسلمان کو ضرور قتل کروں گا۔2 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: ہم نے تُسْتَر کا محاصرہ کیا۔ (آخر محاصرہ اور جنگ سے تنگ آکر تُسْتَر کے حاکم) ہُرمُزان نے اپنے بارے میں حضرت عمر ؓ کے فیصلہ پر اُترنا قبول کیا۔ میں اس کو لے کر حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب ہم حضرت عمر کے پاس پہنچے تو آپ نے اس سے کہا: کہو کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: زندہ رہنے والے کی طرح بات کروں یا مرجانے والے کی طرح؟ حضرت عمر نے کہا: لاَ بَاْسَیعنی تم اپنے بارے میں مت ڈرو، بات کرو۔ ہُرمُزان نے کہا: اے قوم ِ عرب! جب تک اللہ تعالیٰ خود تمہارے ساتھ نہ تھے، بلکہ اللہ نے معاملہ ہمارے اور تمہارے درمیان چھوڑ رکھا تھا اس وقت تک تو ہم تمہیں اپنا غلام بناتے تھے، تمہیں قتل کرتے تھے اور تم سے سارا مال چھین لیا کرتے تھے، لیکن جب سے اللہ تمہارے ساتھ ہوگیا ہے اس وقت سے ہم میں تم سے مقابلہ کی بھی طاقت باقی نہیں رہی۔ حضرت عمر نے (مجھ سے) پوچھا: (اے انس!) تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! میں اپنے پیچھے بڑی تعداد میں دشمن اور اُن کا بڑا دبدبہ چھوڑ کر آیا