حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عبد الملک بن یعلیٰ لیثی کہتے ہیں: حضرت بکیر بن شدّاخ ؓان صحابہ میں سے ہیں جو بچپن سے ہی حضور ﷺ کی خدمت کیاکرتے تھے۔ جب یہ بالغ ہوئے تو انھوںنے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے گھر آتا جاتا تھا، لیکن اب میں بالغ ہوگیا ہوں۔ حضور ﷺ نے (خوش ہو کر) یہ دعا دی: اے اللہ! اس کی بات کو سچا کردے اور اسے کامیابی نصیب فرما۔ جب حضرت عمر ؓ کا زمانۂ خلافت آیا تو ایک یہودی مقتول پایا گیا۔ حضرت عمر نے اسے بہت بڑا حادثہ سمجھا اور آپ گھبرا گئے اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے تو کیا میرے زمانۂ خلافت میں لوگوں کو یوں اچانک قتل کیا جائے گا؟ جس آدمی کو اس قتل کے بارے میں کچھ علم ہے میں اسے اللہ کی یاد دلاکر کہتا ہوں کہ وہ مجھے ضرور بتائے۔ اس پر حضرت بکیر بن شدّاخ نے کھڑے ہو کر کہا: میں نے اسے قتل کیا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اَللّٰہُ أَکْبَرُ۔ تم نے اس کے قتل کا اقرار کرلیا ہے، تو اب ایسی وجہ بتاؤ جس سے تم سزا سے بچ سکو۔ انھوں نے کہا: ہاں! میں بتاتا ہوں۔ فلاں مسلمان اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے گیا اور اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال میرے ذمہ کر گیا۔ میں اس کے گھر گیا تو میں نے اس یہودی کو وہاں پایا اور وہ یہ شعر پڑھ رہا تھا: وَأَشْعَثَ غَرَّہٗ الإِسْلَامُ حَتّٰی خَلَوْتُ بِعِرْسِہٖ لَیْلَ التَّمَامِ اَشعث (اس عورت کے خاوند کا نام ہے) کو تو اسلام نے دھوکہ میں ڈالا ہوا ہے، (وہ اسلامی جذبہ سے گھر چھوڑ کر خدا کے راستہ میں گیا ہوا ہے اور میں نے اس دھوکہ سے یہ فائدہ اُٹھایا کہ) میں نے ساری رات اس کی بیوی کے ساتھ تنہائی میں گزاری ہے۔ أَبِیْتُ عَلٰی تَرَائِبِھَا وَیُمْسِيْ عَلٰی جَرْدَائَ لَاحِقَۃِ الْحِزَامِ میں تو ساری رات اس کی بیوی کے سینہ پرگزار رہا ہوں اور وہ خود چھوٹے بالوں والی اُونٹنی کی پشت پر شام گزارتا ہے جس کا تنگ بندھا ہوا ہے۔ کَأَنَّ مَجَامِعَ الرَّبَلَاتِ مِنْھَا فِئَامٌ یَنْھَضُوْنَ إِلٰی فِئَامِ (عربوں کو عورت کا موٹا ہونا اور مرد کا دبلا ہونا پسند تھا، اس لیے کہہ رہا ہے کہ اس کی بیوی اتنی موٹی ہے کہ) اس کے رانوں کے ملنے کی جگہ یعنی سرین تہہ بہ تہہ ہے، وہاں گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے حضرت بکیر کی بات کو سچا مان لیا اور اس یہودی کے خون کو معاف کر دیا (اور ان سے بدلہ یاخون