حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوں۔ اگر آپ اسے قتل کر دیں گے تو پھر اس کی قوم اپنی زندگی سے نااُمید ہو کر مسلمانوں سے لڑنے میں اور زیادہ زور لگائے گی (اس لیے آپ اس کو قتل نہ کریں)۔ حضرت عمر نے کہا: میں حضرت براء بن مالک اور حضرت حجزأ بن ثور ؓ (جیسے بہادرصحابہ) کے قاتل کو کیسے زندہ چھوڑ دوں ؟ (اس نے ان دونوں کو قتل کیا ہے) حضرت انس ؓ کہتے ہیں: جب مجھے خطرہ ہوا کہ حضرت عمر ؓ تو اسے ضرور قتل کر ہی دیں گے تو میں نے ان سے کہا: آپ اسے قتل نہیں کرسکتے، کیوںکہ آپ اس سے لَا بَأْسَتم مت ڈرو اور بات کرو کہہ چکے ہیں۔ (اور لَا بَأْسَکہنے سے جان کی امان مل جاتی ہے، لہٰذا آپ تو اسے امان دے چکے ہیں) حضرت عمر نے فرمایا: معلوم ہوتا ہے تم نے اس سے کوئی رشوت لی ہے اور اس سے کوئی مفاد حاصل کیا ہے؟ حضرت انس نے کہا: اللہ کی قسم! میںنے اس سے نہ رشوت لی ہے اور نہ کوئی مفاد۔ (میں تو ایک حق بات کہہ رہا ہوں) حضرت عمر نے کہا: تم اپنے اس دعویٰ (کہ لاَ بَأْسَ کہنے سے کافر کو امان مل جاتی ہے) کی تصدیق کرنے والا کوئی اور گواہ اپنے علاوہ لاؤ، ورنہ میں تم سے ہی سزا کی ابتدا کروں گا۔ چناںچہ میں گیا۔ مجھے حضرت زُبیر بن عوّام ؓ ملے، میں ان کو لے کر آیا۔ انھوں نے میری بات کی تصدیق کی، جس پر حضرت عمر ہُرمُزان کے قتل سے رک گئے۔ اور ہُرمُزان مسلمان ہوگیا اور حضرت عمر ؓ نے اس کے لیے بیت المال میں سے وظیفہ مقرر کیا۔1 حضرت عبد اللہ بن ابی حَدْرَد اسلمی ؓ فرماتے ہیں: جب ہم حضرت عمر ؓ کے ساتھ (دمشق کی بستی) جابیہ پہنچے تو آپ نے ایک بوڑھے ذمی کو دیکھا کہ وہ لوگوں سے کھانا مانگ رہا ہے۔ حضرت عمر نے اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھا (کہ یہ کیوں مانگ رہا ہے؟) کسی نے کہا: یہ ذمی آدمی ہے جو کمزور اور بوڑھا ہوگیا ہے۔ حضرت عمر نے اس کے ذمہ جو جزیہ تھا وہ معاف کر دیا اور فرمایا: پہلے تم نے اس پر جزیہ لگایا (جسے وہ دیتا رہا) اب جب وہ کمزور ہوگیا ہے تو تم نے اسے کھانا مانگنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ پھر آپ نے اس کے لیے بیت المال میں سے دس درہم وظیفہ مقرر کیا۔ وہ بوڑھا عیال دار تھا۔2 ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کا ایک بوڑھے ذِمی پر گزر ہوا جولوگوں سے مسجد وں کے دروازوں پر مانگتا پھر رہا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا: (اے ذمی!) ہم نے تم سے انصاف نہیں کیا۔ جوانی میں تو ہم تم سے جزیہ لیتے رہے اور بڑھاپے میں ہم نے تمہارا کوئی خیال نہ رکھا۔ پھر آپ نے اس کے لیے بیت المال میں سے بقدرِ گزارہ وظیفہ جاری کر دیا۔1 حضرت یزید بن ابی مالک ؓ کہتے ہیں: مسلمان جابیہ بستی میں ٹھہرے ہوئے تھے، حضرت عمر ؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ ایک ذمی نے آکر حضرت عمر کو بتایا کہ لوگ اس کے انگوروں کے باغ پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ چناںچہ حضرت عمر باہر نکلے تو ان کی اپنے ایک ساتھی سے ملاقات ہوئی جس نے اپنی ڈھال پر انگور اٹھا رکھے تھے۔ حضرت عمر نے ان سے فرمایا: ارے میاں! تم بھی؟ اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہمیں بہت زیادہ بھوک لگی ہوئی ہے۔ (کھانے کا اور سامان ہے نہیں) یہ