حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بچہ کی دیت یعنی خُون بَہَا آپ کو دینا پڑے گا، کیوںکہ آپ کے بلانے کی وجہ سے وہ عورت گھبرائی ہے اس لیے یوں بچے کے قبل از وقت پیدا ہوجانے کا سبب آپ ہی ہیں۔ اس پر حضرت عمر نے حضرت علی کو حکم دیا کہ اس بچہ کا خون بَہَا سارے قریش سے وصول کریں، اس لیے کہ یہ قتل ان سے خطا کے طور پر صادر ہوا ہے۔1 حضرت عطاء ؓکہتے ہیں: حضرت عمر ؓ اپنے گورنروں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ حج کے موقع پر ان کے پاس آیا کریں۔ جب سارے گورنر آجاتے تو (عام مسلمانوں کو جمع کر کے) فرماتے: اے لوگو! میں نے اپنے گورنر تمہارے ہاں اس لیے نہیں بھیجے ہیںکہ وہ تمہاری کھال اُدھیڑیں، یا تمہارے مال پر قبضہ کریں، یا تمہیں بے عزّت کریں، بلکہ میں نے تو صرف اس لیے ان کو بھیجا ہے تاکہ تمہیں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنے دیں اور تمہارے درمیان مالِ غنیمت تقسیم کریں۔ لہٰذا جس کے ساتھ اس کے خلاف کیاگیا ہو وہ کھڑا ہوجائے (اور اپنی بات بتائے)۔ (چناںچہ ایک مرتبہ انھوںنے گورنروں کو جمع کر کے لوگوں میں یہی اعلان کیا تو) صرف ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کے فلاں گورنر نے مجھے (ظُلماً) سو کوڑے مارے ہیں۔ حضرت عمر نے (اس گورنر سے) کہا: تم نے اسے کیوں مارا؟ (اور اس آدمی سے کہا:) اُٹھ اور اس گورنر سے بدلہ لے۔ اس پر حضرت عمرو بن عاص ؓ نے کھڑے ہو کر کہا: اگر آپ نے اس طرح گورنروں سے بدلہ دلانا شروع کر دیا تو پھر آپ کے پاس بہت زیادہ شکایات آنے لگ جائیں گی اور یہ گورنروں سے بدلہ لینا ایسا دستور بن جائے گا کہ جو بھی آپ کے بعد آئے گا اسے یہ اختیار کرنا پڑے گا (حالاںکہ اپنے گورنروں سے بدلہ دلوانا ہر امیر کے بس میں نہیں ہے)۔ حضرت عمر نے فرمایا: جب میں نے حضور ﷺ کو اپنی ذاتِ اَقدس سے بدلہ دلوانے کے لیے تیار رہتے ہوئے دیکھا ہے تو میں (اپنے گورنر سے) کیوں نہ بدلہ دلواؤں؟ حضرت عمرو نے کہا: آپ ہمیں اس آدمی کو راضی کرنے کا موقع دیں۔ حضرت عمر نے کہا: اچھا، چلو تم اسے راضی کرلو۔ چناںچہ اس گورنر نے ہر کوڑے کے بدلہ دو دینار کے حساب سے دو سو دینار اس آدمی کو بدلہ میں دیے۔2 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: مصر سے ایک آدمی حضرت عمر بن خطّاب ؓ کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! مجھ پر ظلم ہواہے، میں آپ کی پناہ لینا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا: ہاں! تم میری مضبوط پناہ میں ہو۔ تو اس نے کہا: میں نے حضرت عمرو بن عاص ؓ کے بیٹے (محمد) سے دوڑنے میں مقابلہ کیا تو میں اُن سے آگے نکل گیا، تو وہ مجھے کوڑے مارنے لگے اور کہنے لگے: میں بڑے اور کریم لوگوں کی اولاد ہوں۔ اس پر حضرت عمر نے حضرت عمرو کو خط لکھا کہ وہ خود بھی (مصر سے مدینہ منوّرہ) آئیں اور اپنے ساتھ اپنے اس بیٹے کو بھی لائیں۔ چناںچہ حضرت عمر و (مدینہ) آئے تو