حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صبح کو یہ دونوں مصر کے امیر حضرت عمرو بن عاص ؓ کے پاس گئے اور ان سے کہا: (سزا دے کر) ہمیں پاک کر دیں، کیوںکہ ہم نے ایک مشروب پیا تھا جس سے ہمیں نشہ ہوگیا۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں: مجھ سے میرے بھائی نے کہا: مجھے نشہ ہوگیا تھا۔ میں نے ان سے کہا: گھر چلو میں تمہیں (سزا دے کر) پاک کر دوں گا۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں حضرات حضرت عمرو کے پاس جاچکے ہیں۔ پھر میرے بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ امیرِ مصر کو یہ بات بتاچکے ہیں۔ تو میں نے کہا: تم گھر چلو میں تمہارا سر مونڈ دوں گا تاکہ تمام لوگوں کے سامنے تمہارا سر نہ مونڈا جائے۔ اس زمانے کا دستور یہ تھا کہ حد لگانے کے ساتھ سر بھی مونڈ دیتے تھے۔ چناںچہ وہ دونوں گھر چلے گئے۔ میں نے اپنے بھائی کا سر اپنے ہاتھ سے مونڈا، پھر حضرت عمر و نے ان پر شراب کی حد لگائی۔ حضرت عمر ؓ کو اس قصہ کا پتہ چلا تو انھوں نے حضرت عمرو کو خط لکھا کہ عبد الرحمن کو میرے پاس بغیر کجاوہ کے اُونٹ پر سوار کرکے بھیج دو۔ چناںچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ حضرت عمر کے پاس پہنچے تو انھوںنے اسے کوڑے لگائے اور اپنا بیٹا ہونے کی وجہ سے اسے سزا دی پھر اسے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد وہ ایک مہینہ تو ٹھیک رہے پھر تقدیرِ الٰہی غالب آگئی اور ان کا انتقال ہوگیا۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر کے کوڑے لگانے سے ان کا انتقال ہوا ہے، حالاںکہ ان کا انتقال حضرت عمر کے کوڑے لگانے سے نہیںہوا (بلکہ طبعی موت مرے ہیں)۔1 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں: ایک عورت کا خاوند غائب تھا، اس کے پاس کسی کی آمد ورفت تھی۔ حضرت عمر ؓ کو اس سے کھٹک ہوئی۔ حضرت عمر نے بلانے کے لیے اس کے پاس آدمی بھیجا۔ اس آدمی نے اس عور ت سے کہا: حضرت عمرکے پاس چلو، حضرت عمر تمہیں بلا رہے ہیں۔ اس نے کہا: ہائے میری ہلاکت! مجھے عمر سے کیا واسطہ۔ وہ گھر سے چلی (وہ حاملہ تھی) ابھی وہ راستہ ہی میں تھی کہ گھبرا گئی جس سے اسے دردِزِہ شروع ہوگیا۔ وہ ایک گھرمیں چلی گئی جہاں اس کا بچہ پیدا ہوا۔ بچہ دو دفعہ رویا اور مرگیا۔ حضرت عمر نے حضور ﷺ کے صحابہ سے مشور ہ کیا (کہ میرے ڈر کی وجہ سے وہ عورت گھبرا گئی اور بچہ قبل از وقت پیدا ہوگیا اس وجہ سے وہ مرگیا۔ توکیا اس بچہ کے یوںمرجانے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز شرعاً لازم آتی ہے؟) بعض صحابہ نے کہا: آپ پر کچھ لازم نہیں آتا، کیوںکہ آپ مسلمانوں کے والی ہیں اور (اس وجہ سے) آپ کے ذمہ ہے کہ آپ ان کو ادب سکھائیں، کوئی کمی دیکھیں تو انھیں بلا کر تنبیہ کریں۔ حضرت علی ؓ خاموش تھے۔ حضرت عمر نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ حضرت علی نے کہا: اگر ان لوگوں نے یہ بات بغیر کسی دلیل کے محض اپنی رائے سے کہی ہے تو ان کی رائے غلط ہے، اور اگر انھوں نے آپ کو خوش کرنے کے لیے یہ بات کہی ہے تو انھوں نے آپ کے ساتھ خیر خواہی نہیں کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس