حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پہلے اسے راضی کرلیں۔ یہ سن کر حضرت عمر نے حضرت عباس کو چھوڑ دیا۔ بعد میں حضرت عباس نے اپنی خوشی سے اس گھر کو مسجد میں شامل کر دیا۔1 حضرت سعید بن مُسیّب ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر ؓ نے ارادہ فرمایاکہ حضرت عباس بن عبد المطّلب ؓ کا گھر لے کر مسجدِ (نبوی) میں شامل کر دیں۔ حضرت عباس نے انھیں گھر دینے سے انکارکر دیا۔ حضرت عمر نے کہا: میں تو یہ گھر ضرور لوں گا۔ حضرت عباس نے کہا: حضرت اُبی بن کعب ؓ سے فیصلہ کروالو۔ حضرت عمر نے کہا: ٹھیک ہے۔ چناںچہ دونوں حضرات حضرت اُبی کے پاس آئے اور ان سے سارا قصہ بیان کیا۔ حضرت اُبی نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان بن داؤد ؑ کی طرف وحی بھیجی کہ وہ بیت المقدس کی تعمیر کریں۔ وہ زمین ایک آدمی کی تھی۔ حضرت سلیمان ؑ نے اس سے وہ زمین خریدی۔ جب اسے قیمت ادا کرنے لگے تو اس آدمی نے کہا: جو قیمت تم مجھے دے رہے ہو وہ زیادہ بہتر ہے یا جو زمین تم مجھ سے لے رہے ہو وہ زیادہ بہتر ہے؟ حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا: جو زمین میںتم سے لے رہا ہوں وہ زیادہ بہتر ہے۔ اس پر اس آدمی نے کہا: تو پھر میں اس قیمت پر راضی نہیں ہوں۔ پھر حضرت سلیمان ؑ نے اسے پہلے سے زیادہ قیمت دے کر خریدا۔ اس آدمی نے حضرت سلیمان ؑ کے ساتھ دو تین مرتبہ اسی طرح کیا (ایک قیمت مقرر کر کے پھر اس سے زیادہ کا مطالبہ کر دیتا)۔ آخر حضرت سلیمان ؑ نے اس پر یہ شرط لگائی کہ تم جتنی قیمت کہہ رہے ہو میں اُتنے میں خریدتا ہوں، لیکن تم بعد میں یہ نہ پوچھنا کہ زمین اور قیمت میں سے کون سی چیز بہترہے۔ چناںچہ اس کی بتائی ہوئی قیمت پر خریدنے لگے تو اس نے بارہ ہزار قِنْطار سونا قیمت لگائی۔ (ایک قِنْطار چار ہزار دینار کو کہتے ہیں) حضرت سلیمان ؑ کو یہ قیمت بہت زیادہ معلوم ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اگر تم اسے یہ قیمت اپنے پاس سے دے رہے ہو تو پھر تو تم جانو، اور اگر تم ہمارے دیے ہوئے مال میں سے دے رہے ہو توپھراسے اتنا دو کہ وہ راضی ہوجائے۔ چناںچہ حضرت سلیمان ؑ نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر حضرت اُبی نے فرمایا: میرا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت عباس اپنے گھر کے زیادہ حق دار ہیں۔ اگر ان کا گھر مسجد میں شامل کرنا ہی ہے تو پھر وہ جس طرح راضی ہوں انھیں راضی کیا جائے۔ اس پر حضرت عباس نے کہا: جب آپ نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا ہے تو میں اب یہ گھر مسلمانوں کے لیے صدقہ کرتا ہوں۔1 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں مصر میں میرے بھائی عبد الرحمن نے اور ان کے ساتھ ابو سِرْوَعَہ عقبہ بن حارث نے نبیذ پی۔ (پانی میں کھجوریں ڈال دی جاتی تھیں، کچھ دیر کھجوریں پڑی رہتی تھیں جس سے وہ پانی میٹھا ہوجاتا تھا، اسے نبیذ کہا جاتا تھا۔ زیادہ دیر پڑے رہنے سے اس میں نشہ بھی پید اہوجاتا تھا) جس سے انھیں نشہ ہوگیا۔