حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر آپ نے اسی طرح ارشاد فرمایا۔ میں نے پھر کہا: کون میرے لیے گواہی دیتا ہے؟ اور پھر میں بیٹھ گیا۔ حضور ﷺ نے پھر وہی ارشا د فرمایا۔ میں نے پھر کہا: کون میرے لیے گواہی دیتا ہے؟ اور پھر میں بیٹھ گیا۔ آپ نے پھر وہی ارشاد فرمایا، میں پھر کھڑا ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اے ابو قتادہ! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے آپ کو سارا قصہ بتایا تو ایک آدمی نے کہا: یہ سچ کہتے ہیں، اس مقتول کافر کا سامان میرے پاس ہے۔ (یا رسول اللہ!) آپ ان کو کسی طرح مجھ سے راضی فرمادیں (کہ یہ اس مقتول کا سامان میرے پاس رہنے دیں)۔ حضرت ابو بکر ؓ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ایسے نہیں ہوسکتا۔ جب ان کی بات ٹھیک ہے تو یہ سامان ان کو ہی ملنا چاہیے۔ تمہیں دینے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے لڑنے والے اللہ کے شیر کو ملنے والا سامان حضور ﷺ تمہیں دے دیں۔ حضور ﷺ نے اس سے فرمایا: ابو بکر ٹھیک کہتے ہیں، تم ان کو وہ سامان دے دو۔ چناںچہ اس نے مجھے وہ سامان دے دیا جس سے میں نے بنو سَلَمہ کے علاقہ میں ایک باغ خریدا۔ یہ وہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں جمع کیا۔1 حضرت عبد اللہ بن ابی حَدْرَد اسلمی ؓ کہتے ہیں: ان کے ذمہ ایک یہودی کے چار درہم قرض تھے۔ اس یہودی نے اس قرض کی وصولی میں حضور ﷺ سے مدد لینی چاہی اور یوں کہا: اے محمد! میرے اس آدمی کے ذمہ چار درہم قرض ہیں اور یہ ان دراہم کے بارے میں مجھ پر غالب آچکے ہیں۔ (یعنی میں کئی مرتبہ ان سے تقاضا کر چکا ہوں لیکن یہ مجھے دیتے نہیں) حضور ﷺ نے ان سے فرمایا: اس کا حق اسے دے دو۔ انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! دینے کی میرے پاس بالکل گنجایش نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا: اس کا حق اسے دے دو۔ انہوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! دینے کی بالکل گنجایش نہیں۔ اور میں نے اسے بتایا تھا کہ آپ ہمیں خیبر بھیجیں گے اور اُمید ہے کہ آپ ہمیں کچھ مالِ غنیمت دیں گے، اس لیے وہاں سے واپسی پر اس کا قرض ادا کر دوں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اس کا حق ادا کردو۔ آپ کی عادت ِشریفہ یہ تھی کہ آپ کسی بات کو تین دفعہ سے زیادہ نہیں فرماتے تھے۔ (تین دفعہ فرما دینا پورے اہتمام اور تاکید کی نشانی تھی) چناںچہ حضرت ابنِ ابی حَدْرَد بازار گئے۔ ان کے سرپر پگڑی تھی اور ایک چادر باندھ رکھی تھی، انھوں نے سر سے پگڑی اتار کر اسے لنگی بنالیا اور چادر کھول کر اس یہودی سے کہا: تم مجھ سے یہ چادر خرید لو۔ چناںچہ وہ چادر اس یہودی کے ہاتھ چار درہم میں بیچ دی۔ اتنے میں ایک بڑھیا کا وہاں سے گزر ہوا اس نے یہ حال دیکھ کر کہا: اے حضور ﷺ کے صحابی! تمہیں کیا ہوا؟ انھوں نے اسے سارا قصہ سنایا تو اس بڑھیا نے اپنے اوپر سے چادر اتار کر ان پر ڈال دی اور کہا: یہ چادر لے لو۔2 حضرت اُمّ سَلَمہ ؓ فرماتی ہیں: اَنصار کے دو آدمی کسی ایسی میراث کا جھگڑا لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے