حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عروہ ؓ کہتے ہیں: حضور ﷺ کے زمانہ میں فتحِ مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی۔ اس عورت کی قوم والے گھبرا کر حضرت اُسامہ بن زید ؓ کے پاس گئے تاکہ وہ حضور ﷺ سے اس عورت کی سفارش کر دیں (اور یوں ان کی عورت چوری کی سزا سے بچ جائے)۔ جب حضرت اُسامہ نے اس بارے میں حضور ﷺ سے بات کی تو آپ کا چہرۂ مبارک (غصہ کی وجہ سے) بدل گیا اور فرمایا: (اے اُسامہ !) تم مجھ سے اللہ کی حدود کے بارے میں (سفارش کی) بات کر رہے ہو؟ (حضرت اُسامہ ؓ سمجھ گئے کہ سفارش کرکے انھوںنے غلطی کی ہے اس لیے فوراً) حضرت اُسامہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ میرے لیے اِستغفار فرمائیں۔ شام کو حضور ﷺ بیان فرمانے کھڑے ہوئے۔ پہلے اللہ کی شان کے مناسب ثنا بیان کی پھر فرمایا: اَما بعد! تم سے پہلے لوگ صرف اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب اُن کا طاقت ور اور معزّز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کمزور آدمی چوری کرتا تواس پر حدِّ شرعی قائم کرتے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ( ؑ) کی جان ہے! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹوں گا۔ (أَعَاذَھَا اللّٰہُ مِنْہَا) پھر حضور ﷺ نے حکم دیا جس پر اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا۔ اور اس نے بہت اچھی توبہ کی اور اس نے شادی بھی کی۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں: اس کے بعد وہ عورت (میرے پاس) آیا کرتی تھی اور میں اس کی ضرورت کی بات حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا کرتی۔1 حضرت ابو قتادہ ؓ کہتے ہیں: ہم لوگ حضورِ اَقدس ﷺ کے ساتھ غزوۂ حنین کے موقع پر نکلے۔ جب ہمارا (دشمن سے) سامنا ہوا تو اکثر مسلمان بکھر گئے (البتہ حضورﷺ اور بعض صحابہ ؓ میدانِ جنگ میں جمے رہے)۔ میں نے دیکھا کہ ایک مشرک آدمی ایک مسلمان پر چڑھا ہواہے۔ میں نے پیچھے سے اس مشرک کے کندھے پر تلوار کا وار کیا جس سے اس کی زرہ کٹ گئی (اور کندھے کی رگ بھی کٹ گئی۔ وہ زخمی تو ہوگیا لیکن) وہ مجھ پر حملہ آور ہوا اور مجھے اس زور سے بھینچا کہ میں مرنے کے قریب ہوگیا (لیکن زیادہ خون نکل جانے کی وجہ سے وہ کمزور ہوگیا) آخر اس پر موت کے اثرات طاری ہونے لگے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا (اور پھر وہ مرگیا)۔ میں حضرت عمر ؓ سے ملا۔ میں نے ان سے کہا: لوگوں کو کیا ہوا؟ (کہ ان مسلمانوں کو شکست ہوگئی) انھوں نے کہا: اللہ کا حکم ایسا ہی تھا۔ (بعد میں کفار کو مکمل شکست ہوئی اور مسلمان جیت گئے) پھر مسلمان (میدانِ جنگ سے) واپس آئے۔ حضور ﷺ بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہے اور اس کے پاس گواہ بھی ہے تو اس مقتول کا سامان اسے ہی ملے گا۔ میں نے کھڑے ہو کر کہا: کون میرے لیے گواہی دیتا ہے؟ (جب کسی نے جواب نہ دیا تو) میں بیٹھ گیا۔