حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا: پھر میں اجازت نہیں دیتا۔ حضرت ابو الدرداء نے کہا: میں وہاں جاکر لوگوں کو ان کے نبی ﷺ کی سنت سکھاؤں گا اور انھیں نماز پڑھاؤں گا۔ اس پر حضرت عمر نے ان کو اجازت دے دی (اور وہ ملکِ شام چلے گئے۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد) حضرت عمر ملکِ شام تشریف لے گئے۔ جب حضرات صحابۂ کرام کے قریب پہنچے توحضرت عمر رک گئے یہاںتک کہ شام ہوگئی۔ جب رات کا اندھیرا چھا گیا تو (اپنے دربان سے) فرمایا: اے یرفا! حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ کے پاس لے چلو ، اور ان کو دیکھو! ان کے پاس مجلس جمی ہوئی ہوگی اور چراغ جل رہا ہوگا اور مسلمانوں کے مالِ غنیمت میں سے لے کر ریشم اور دیباج بچھا رکھا ہوگا۔ (ان حضرات کے ریشم کوبچھانے کی وجہ یہ تھی کہ اول تو ان حضرات کا ملکِ شام میں قیام عارضی تھا، وہاں ٹھہرنے کے جو پہلے سے انتظامات تھے ان ہی میں چند دن ٹھہر کر انھیں آگے جاناتھا۔ دوسرے ہوسکتا ہے کہ اس کا تانا ریشم کا ہو اور بانا سوتی وغیرہ حلال دھاگے کا ہو۔ تیسرے اگر وہ مکمل ریشم ہی کا تھا تو بعض صحابۂ کرام ؓ ریشم کے بچھانے کو جائز سمجھتے تھے۔ البتہ ریشم کے پہننے کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں تھا) تم انھیں سلام کرو گے وہ تمہارے سلام کا جواب دیں گے، تم ان سے اندر آنے کی اجازت مانگوگے وہ پہلے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو، پھر تم کو اجازت دیں گے۔ چناںچہ ہم لوگ وہاں سے چلے اور حضرت یزید کے دروازے پر پہنچے۔ حضرت عمر نے کہا: السلام علیکم۔ حضرت یزید نے کہا: وعلیکم السلام۔ حضرت عمر نے کہا: میں اندر آجاؤں؟ انھوں نے کہا: آپ کون ہیں؟ حضرت یرفا نے کہا: یہ وہ ہستی ہے جو تمہارے ساتھ ناگوار سلوک کرے گی، یہ امیر المؤمنین ہیں۔ حضرت یزید نے دروازہ کھولا۔ (حضرت عمر اور حضرت یرفا اندر داخل ہوئے) ان حضرات نے دیکھا کہ مجلس جمی ہوئی ہے، چراغ جل رہا ہے، ریشم اور دیباج بچھا ہواہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اے یرفا! جلدی سے دروازہ بند کرو، دروازہ بند کرو۔ اور ایک کوڑا حضرت یزید کی کنپٹی پر رسید کیا اور سارا سامان سمیٹ کر گھر کے درمیان رکھ دیا اور ان لوگوں سے کہا: میرے واپس آنے تک تم میں سے کوئی بھی اس جگہ سے نہ ہلے، سب یہیں رہیں۔ پھر یہ دونوں حضرات حضرت یزید کے پاس سے باہر آئے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اے یرفا ! آؤ چلیں۔ حضرت عمر و بن عاص ؓ کے پاس چلتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس بھی مجلس جمی ہوئی ہوگی اور چراغ جل رہا ہوگا اور مسلمانوں کے مالِ غنیمت میں سے دیباج بچھا رکھا ہوگا۔ تم انھیں سلام کروگے وہ تمہارے سلام کا جواب دیں گے، پھر تم ان سے اندر آنے کی اجازت مانگو گے وہ اجازت دینے سے پہلے پوچھیں گے کہ تم کون ہو۔ چناںچہ حضرت عمروکے دروازے پر پہنچے۔ حضرت عمر نے فرمایا: السلام علیکم۔ حضرت عمرو نے جواب دیا: وعلیکم السلام۔ حضرت عمر نے فرمایا: کیامیںاندرآجاؤں؟ حضرت عمرو نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ حضرت یرفا نے کہا: