سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
ہنسی بھی ہے گو لبوں پہ ہردم اور آنکھ بھی میری ترنہیں ہے مگر جو دل رو رہا ہے پیہم کسی کو اس کی خبر نہیں ہے اور ایک مثال اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی کہ کسی باپ کے بہت سے بچے ہوں، جو باپ کے نہایت فرماں بردار ہوں اور باپ ان سے خوش ہو، وہ جب آپس میں ہنستے ہیں تو باپ خوش ہوتا ہے کہ میرے بچے کیسے ہنس رہے ہیں۔ اور نافرمان بچے جن سے باپ ناراض ہے،وہ جب ہنستے ہیں تو باپ کو غصہ آتا ہے کہ مجھے ناخوش کیا ہوا ہے اور نالائق ہنس بھی رہے ہیں ۔توجن بندوں نے اللہ تعالیٰ کو راضی کیا ہوا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کو ناخوش نہیں کرتے،اپنی آرزوؤں کو توڑ دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون کو نہیں توڑتے ،ان کے ہنسنے سے اللہ تعالیٰ خو ش ہوتے ہیں۔اور جو غافل اور نافرمان ہیں ان کی ہنسی بھی اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، دونوں کے ہنسنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے قُطب العالم حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ رضائے دائمی عطا فرمائیں ۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ رضائے دائمی کی قید لگانے کی ضرورت نہیں،کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس سے ایک دفعہ خوش ہوتا ہے تو پھر ہمیشہ خوش رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ خوش ان ہی سے ہوتا ہے جو ہمیشہ باوفا رہتے ہیں، اگر ان سے خطا ہو جائے تو توفیقِ توبہ دے کر پھر اس کو قابلِ پیار بنالیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے مقبول بندوں کے ساتھ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ لِیَتُوۡبُوۡا کا معاملہ رہتا ہے،جس کی تفسیر ہےاَیْ وَفَّقَہُمْ لِلتَّوْبَۃِ؎ عرشِ اعظم سے ان کو توفیقِ توبہ دیتے ہیں،تاکہ وہ زمین پر توبہ کرلیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے پیارے بن جائیں ۔ پس چوں کہ اللہ تعالیٰ کو ماضی،حال اورمستقبل سب کا علم ہے، لہٰذا اس کو ہی اپنا مقبول بناتے ہیں جو مستقبل میں ہمیشہ ان کا وفادار رہتا ہے ، بے وفا کو اللہ تعالیٰ پیارا ہی نہیں بناتے، اس لیے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ رضائے دائمی کی قید لگانے کی ضرورت نہیں، بس یوں کہو کہ اے اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رضائے کامل نصیب فرما۔ ------------------------------