سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
ہے،ان کو نظر بچانے میں زیادہ مجاہدہ اور غم اٹھانا پڑتا ہے پھر اسی کے بقدر ایمانی مٹھاس ملتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ اللہ دل میں آجاتا ہے ۔ پھر حضرت والا نے یہ اشعار پڑھوائے،جس کا مطلع ہے ؎ لطفِ گلشن بھی دے لطفِ صحرا بھی دے اس چمن میں کوئی غم کا مارا بھی دے فرمایا کہ لطفِ گلشن سے مراد گلشن اقبال کی خانقاہ اور مدرسہ ہے اور لطفِ صحرا سے مراد سندھ بلوچ کی خانقاہ اور مدرسہ ہے اور غم کا مارا تمہارا شیخ ہے۔ اور فرمایا کہ ہر شعر میری آہِ دل ہے جو شعر میں منتقل ہوگئی ہے۔ احقر جلیل احمداخون عفی عنہ عرض کرتا ہے کہ حضرت شیخ دامت برکاتہم نے اپنی آہ سحرگاہی میں جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا وہ اللہ تعالیٰ نے بطریقِ اتم واکمل عطا فرمایا ،جس کا مشاہدہ کھلی آنکھوں کیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے ان نعمتوں کے خواہ ست گار ہیں۔ اب پوری مناجات ملاحظہ فرمائیں۔ لطف ِگلشن بھی دے لطفِ صحرا بھی دے اس چمن میں کوئی غم کا مارا بھی دے ایسی کشتی کو موجوں کا کچھ ڈر نہیں مالکِ بحر و بر جب سہارا بھی دے موجِ غم میں ہے کشتی پھنسی اے خدا فضل سے اس کو کوئی کنارا بھی دے مجھ کو خلوت میں بھی یاد تیری رہے اے خدا عاشقوں کا نظارا بھی دے یوں بیانِ محبت زبان پر تو ہے اے خدا مجھ کو آنسو کا دریا بھی دے