سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
کرے، اس کے منہ میں مٹی ڈالو۔تو حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے تھے کہ یہ ان پیشہ وروں کے لیے ہے جو تعریف کرکے پیسہ کماتے ہیں، ورنہ اگر استاد شاگرد کی تعریف کرے، شیخ مرید کی تعریف کرے، تو کیا شاگرد استاد اور شیخ کے منہ میں مٹی ڈالے گا؟ اور فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃًمیں ثنائے خلق بھی شامل ہے۔ حدیث شریف میں آتاہے اِذَامُدِحَ الْمُؤْمِنُ فِیْ وَجْھِہٖ رَبَا الْاِیْمَانُ فِیْ قَلْبِہٖ؎ جب مومن کامل کی تعریف کی جاتی ہے تواس کاایمان بڑھ جاتاہے۔ چوں کہ اس کاایمان کامل ہوتاہے توتعریف سے اس کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے، وہ اپنی تعریف کو اﷲ تعالیٰ کی تعریف سمجھتاہے، اپنی تعریف نہیں سمجھتا۔میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوریرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاتھا کہ تعریف کی صرف چارقسمیں ہیں پانچویں کوئی قسم نہیں ہے اور چاروں اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ تعریف کی چار قسمیں یہ ہیں:۱)بندہ بندے کی تعریف کرے۲)بندہ اﷲ تعالیٰ کی تعریف کرے ۳)اﷲ تعالیٰ بندے کی تعریف کرے۴)اﷲ تعالیٰ خود اپنی تعریف کرے۔اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سب تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ اگرکسی کمہارکے برتن کی تعریف کی جائے ،تواصل میں وہ کمہارکی تعریف ہے۔ مٹی کے برتن بنانے والے کو کمہار کہتے ہیں۔ اگرکوئی برتن پھولنے لگے کہ واہ! میری تعریف کی جارہی ہے،تویہ اس کی حماقت ہے، اس لیے جو خادم اور کچے لوگ ہیں،غیرعارف ہیں،وہ اپنی تعریف سے پھول جاتے ہیں،اگراندیشہ ہو کہ گدھے کی طرح پھول جائیں گے توایسوں کے سامنے ان کی تعریف نہ کرے۔ لیکن تعریف مطلق منع نہیں ہے، اس لیے حدیثِ پاک میں ہے کہ اِذَامُدِحَ الْمُؤْمِنُ فِیْ وَجْھِہٖ رَبَا الْاِیْمَانُ فِیْ قَلْبِہٖکہ جب مومن کی تعریف کی جاتی ہے، مومن سے مراد مومن کامل ہے، کیوں کہ اَلْمُطْلَقُ اِذَا اُطْلِقَ یُرَادُ بِہِ الْفَرْدُ الْکَامِلُ جب کوئی چیز مطلق بولی جائے تومراد اس کا فردِ کامل ہوتا ہے۔معلوم ------------------------------