حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جماعت کا امیر بنایا۔ جب یہ واپس آئے تو حضور ﷺ نے ان سے پوچھا: تم نے اَمارت کو کیسے پایا؟ انھوں نے کہا: یہ لوگ مجھے اُٹھاتے اور بٹھاتے تھے یعنی میرا خوب اِکرام کرتے تھے، جس سے اب مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میں وہ پہلے جیسا مقداد نہیں رہا (میری تواضع والی کیفیت میں کمی آگئی ہے)۔ حضور ﷺ نے فرمایا: واقعی اَمارت ایسی ہی چیز ہے۔ حضرت مقداد نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! آیندہ میں کبھی بھی کسی کام کا ذمہ دار نہیں بنوں گا۔ چناںچہ اس کے بعد لوگ ان سے کہاکرتے تھے کہ آپ آگے تشریف لاکر ہمیں نماز پڑھا دیں تو یہ صاف انکار کر دیتے (کیوںکہ نماز میں امام بننا اَمارتِ صغریٰ ہے)۔2 اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت مقداد نے کہا: مجھے سواری پر بٹھا یا جاتا اور سواری سے اتارا جاتا، جس سے مجھے یوں نظر آنے لگا کہ مجھے ان لوگوں پر فضیلت حاصل ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اَمارت تو ایسی ہی چیز ہے، (اب تمہیں اختیار ہے) چاہے اسے آیندہ قبول کرو یا چھوڑ دو۔ حضرت مقدادنے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! آیندہ میں کبھی دو آدمیوں کا بھی امیر نہیں بنوں گا۔1 حضرت مقداد بن اَسود ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ مجھے کسی جگہ (امیر بنا کر) بھیجا۔ جب میں واپس آیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو؟ میں نے کہا: آہستہ آہستہ میری کیفیت یہ ہو گئی کہ مجھے اپنے تمام ساتھی اپنے خادم نظر آنے لگے اور اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کبھی دو آدمیوں کا بھی امیر نہیں بنوں گا۔2 ایک صاحب بیا ن کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ایک آدمی کو ایک جماعت کا امیر بنایا۔ جب وہ کام کرکے واپس آئے تو حضور ﷺ نے ان سے پوچھا: تم نے اَمارت کو کیسا پایا؟ انھوں نے کہا: میں جماعت کے بعض افراد کی طرح تھا، جب میں سوار ہو تا تو ساتھی بھی سوار ہو جاتے اور جب میں سوار ی سے اترتا تو وہ بھی اتر جاتے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: عام طور پر ہر سلطان ایسے (ظالمانہ) کام کرتا ہے جس سے وہ اللہ کی ناراضگی کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے، مگر جس سلطان کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں لے لیں وہ اس سے بچ جاتاہے (بلکہ وہ تو اللہ کے عرش کا سایہ پاتا ہے)۔ اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! اب میں نہ آپ کی طرف سے اور نہ کسی اور کی طرف سے امیر بنوں گا۔ اس پر آپ اتنا مسکرائے کہ آپ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔3 حضرت رافع طائی کہتے ہیں: میں ایک غزوہ میں حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ تھا۔ جب ہم واپس آنے لگے تو میں نے کہا: اے ابو بکر! مجھے کچھ وصیت فرما دیجیے۔ انھوں نے فرمایا: فرض نماز اپنے وقت پر پڑھا کرو، اپنے مال کی زکوٰۃ خوشی خوشی ادا کیاکرو، رمضان کے روزے رکھا کرو، بیت اللہ کا حج کیا کرو اور اس بات کا یقین رکھو کہ اِسلام میں ہجرت بہت اچھا عمل