حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسلام کی وجہ سے ان کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔ اور مسلمان آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں۔ ایک عضو کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ باقی تمام اَعضا کو بھی پہنچتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو ایک جسم کے اَعضاکی طرح ہونا چاہیے (کہ ایک مسلمان کی تکلیف سے سب کو تکلیف ہو)۔ اور مسلمانوں کا ہر کام حضراتِ اہلِ شوریٰ کے مشورے سے طے ہونا چاہیے۔ عام مسلمان اپنے امیر کے تابع ہیں۔ اور ا ہلِ شوریٰ جس چیز پر اتفاق کرلیں اور اسے پسند کرلیں تو تمام مسلمانوں کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اور جو مسلمانوں کا امیر بنے وہ ان اہلِ شوریٰ کاتابع ہے۔ اسی طرح جنگی تدابیر میں جو اہلِ شوریٰ کی رائے ہو اور جس تدبیر پر اہلِ شوریٰ راضی ہو ں اس میں تمام مسلمان ان کے تابع ہیں۔ اے لوگو! میں بھی تم میں سے ایک آدمی تھا، (اور میرا بھی تمہارے ساتھ جانے کا ارادہ تھا) لیکن تمہارے اہلِ شوریٰ نے مجھے جانے سے روک دیا ہے۔ اب میری بھی یہ ہی رائے ہے کہ میں (مدینہ ہی) ٹھہروں اور (اپنی جگہ) کسی دوسرے کو (امیر بنا کر) بھیج دوں۔ اور میں جن کو آگے بھیج چکا تھا یا پیچھے (مدینہ) چھوڑ آیا تھا (اور جو یہاں موجود تھے) میں ان سب سے اس بارے میں مشورہ کر چکا ہوں۔ حضرت عمر پیچھے مدینہ میں حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنا کر آئے تھے اور مقدمۃ الجیش پر امیر بنا کر حضرت طلحہ کو آگے اَعْوَص مقام پر بھیج رکھا تھا۔ چناںچہ حضرت عمرنے ان دونوں کو بھی بلا کر اس مشورہ میں شریک کیا تھا۔1 ابنِ جریر حضرت عمر بن عبد العزیز ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓکو حضرت ابو عبید بن مسعود ؓ کے شہید ہونے کی اطلاع ملی اور یہ پتہ چلا کہ اہلِ فارس کسریٰ کے خاندان کے ایک آدمی (کی اَمارت) پر جمع ہو رہے ہیں، تو حضرت عمرنے اعلان کر کے حضراتِ مہاجرین اور اَنصار کو جمع فرمایا اور ان کو اپنے ساتھ لے کر (مدینہ سے) باہر نکلے یہاں تک کہ صِرَار مقام پر پہنچ گئے۔ آگے مختصر حدیث ذکر کی جیسے کہ پہلے گزر چکی ہے۔ امام طبرانی حضرت محمد بن سلام بِیکِنْدی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن معد یکرب ؓ نے زمانۂ جاہلیت میں بہت سے کارنامے کیے تھے اور انھوں نے اسلام کا زمانہ بھی پایا ہے۔ حضور ﷺ کی خدمت میں وفد کے ہمراہ آئے تھے۔ اور حضرت عمر بن الخطّاب ؓ نے ان کو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس قادسیّہ بھیجا تھا اور وہاں انھوں نے اپنی بہادری کے بڑے جوہر دکھا ئے تھے۔ حضرت عمر نے حضرت سعدکو خط میں یہ لکھا تھا کہ میں تمہاری مدد کے لیے دو ہزار آدمی بھیج رہا ہوں: ایک حضرت عمرو بن معدیکرب اور دوسرے حضرت طُلَیحہ بن خُوَیْلد اسدی ؓ ہیں۔ (یعنی یہ دونوں اتنے بہادر ہیںکہ ان میں سے ہر ایک ہزار آدمیوں کے برابرہے) ان دونوں سے جنگی امور میں مشورہ کرتے رہنا، لیکن ان کو کسی کا ذمہ دار نہ بنانا۔1