حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا حکم دیتا ہوں اور مجھے اس پر اﷲ سے اجر ملنے کی امید ہے۔1 حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں: جب حضرت عمرؓ لوگوں کو کسی کام سے روکنے کا ارادہ فرماتے تو اپنے گھر والوں سے پہل فرماتے اور فرماتے: تم میں سے جس کے بارے میں مجھے پتا چلا کہ اس نے وہ کام کیا ہے جس سے میں نے روکا ہے تو میں اس کو دگنی سزا دوں گا ۔2 حضرت ابنِ شہاب ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ہشام بن حکیم بن حزامؓ اپنے ساتھ چند لوگوں کی جماعت بنا کر امر بالمعروف کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کو جب کسی برائی کی خبر ملتی تو فرماتے: جب تک میں اور ہشام زندہ ہیں یہ برائی نہیں ہو سکے گی۔3 حضرت ابو جعفر خطمی ؓ کہتے ہیں کہ میرے دادا حضرت عمیر بن حبیب بن خماشہؓ کو بلوغت کے وقت سے حضورﷺ کی صحبت حاصل ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو یہ وصیت فرمائی : اے بیٹے! بے وقوفوں کے پاس بیٹھنے سے بچو، کیوںکہ ان کے پاس بیٹھنا بیماری ہے۔ جو بے وقوف کی برداشت کرتا ہے وہ خوش رہتا ہے، اور جو اس کی غلط باتوں کا جواب دے گا اسے آخر میں ندامت اٹھانی پڑے گی۔ اور جو بے وقوف کی تھوڑی تکلیف کو برداشت نہیں کرتا اسے پھر زیادہ برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جب تم میں سے کوئی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو تکلیفوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے اور اﷲ تعالیٰ سے ثواب ملنے کا یقین رکھے، کیوںکہ جسے اﷲ سے ثواب ملنے کا یقین ہوگا اسے تکلیفوں کے پیش آنے سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔4 حضرت عبدالعزیز بن ابی بکرہ ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکرہؓ نے قبیلہ بنو غُدَانہ کی ایک عورت سے شادی کی ۔ پھر اس عورت کا انتقال ہو گیا۔ وہ اس کے جنازے کو اٹھا کر قبرستان لے گئے۔ اس عورت کے بھائیوں نے کہا: ہم اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں گے۔ حضرت ابوبکرہ نے ان سے فرمایا: ایسے نہ کرو، کیوںکہ میں اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا تم سے زیادہ حق دار ہوں۔ ان بھائیوں نے کہا: حضورﷺ کے صحابی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ چناںچہ انھوں نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ پھروہ قبر میں داخل ہونے لگے تو لوگوں نے اتنے زور سے دھکا دیا کہ وہ زمین پر گرگئے اور بے ہوش ہو گئے۔ پھرانھیں اٹھا کر گھر لایا گیا۔ وہاں ان کے بیس بیٹوں اور بیٹیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ میں ان بیس میں سب سے چھوٹا تھا۔ جب انھیں ہوش آیا تو فرمایا: تم مجھ پر زور زور سے مت رئوو۔ اﷲ کی قسم! مجھے ابو بکرہ کی جان سے زیادہ اور کسی کی جان کا نکلنا محبوب نہیں ہے۔ یہ سن کر ہم سب گھبرا گئے اور ہم نے کہا: اے ابا جان! کیوں؟ (آپ دنیا سے کیوں جانا چاہتے ہیں؟) انھوں نے فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں ایسا زمانہ میری زندگی میں نہ آجائے جس میں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کر سکوں اور اس زمانے میں کوئی خیر نہ ہوگی۔1